ہجرت کا پانچواں سال
بنو قریظہ کی غداری
قبیلہ بنو قریظہ کے یہودی اب تک غیر جانبدار تھے لیکن بنو نضیر کے یہودیوں نے ان کو بھی اپنے ساتھ ملا کر لشکر کفار میں شامل کر لینے کی کوشش شروع کر دی چنانچہ حیی بن اخطب ابو سفیان کے مشورہ سے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا پہلے تو اسنے اپنا دروازہ نہیں کھولا اور کہا کہ ہم محمد (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے حلیف ہیں اور ہم نے ان کو ہمیشہ اپنے عہد کا پابند پایا ہے اس لئے ہم ان سے عہد شکنی کرنا خلاف مروت سمجھتے ہیں مگر بنو نضیر کے یہودیوں نے اس قدر شدید اصرار کیا اور طرح طرح سے ورغلایا کہ بالآخر کعب بن اسد معاہدہ توڑنے کے لئے راضی ہو گیا، بنو قریظہ نے جب معاہدہ توڑ دیا اور کفار سے مل گئے تو کفار مکہ اور ابو سفیان خوشی سے باغ باغ ہو گئے۔
حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب اس کی خبر ملی تو آپ نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کو تحقیق حال کے لئے بنو قریظہ کے پاس بھیجا وہاں جا کر معلوم ہوا کہ واقعی بنو قریظہ نے معاہدہ توڑ دیا ہے جب ان دونوں معزز صحابیوں رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بنو قریظہ کو ان کا معاہدہ یاد دلایا تو ان بد ذات یہودیوں نے انتہائی بے حیائی کے ساتھ یہاں تک کہہ دیا کہ ہم کچھ نہیں جانتے کہ محمد (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کون ہیں؟ اور معاہدہ کس کو کہتے ہیں؟ ہمارا کوئی معاہدہ ہوا ہی نہیں تھا یہ سن کر دونوں حضرات واپس آگئے اور صورتحال سے حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو مطلع کیا تو آپ نے بلند آواز سے ”ﷲ اکبر” کہا اور فرمایا کہ مسلمانوں! تم اس سے نہ گھبراؤ نہ اس کا غم کرو اس میں تمہارے لئے بشارت ہے۔
(زرقانی جلد ۲ ص۱۱۳)
کفار کا لشکر جب آگے بڑھا تو سامنے خندق دیکھ کر ٹھہر گیا اور شہر مدینہ کا محاصرہ کر لیا اور تقریباً ایک مہینے تک کفار شہر مدینہ کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے پڑے رہے اور یہ محاصرہ اس سختی کے ساتھ قائم رہا کہ حضورصلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر کئی کئی فاقے گزر گئے۔
کفار نے ایک طرف تو خندق کا محاصرہ کر رکھا تھا اور دوسری طرف اس لئے حملہ کرنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی عورتیں اور بچے قلعوں میں پناہ گزیں تھے مگر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جہاں خندق کے مختلف حصوں پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو مقرر فرما دیا تھا کہ وہ کفار کے حملوں کا مقابلہ کرتے رہیں اسی طرح عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لئے بھی کچھ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو متعین کر دیا تھا۔
قبیلہ بنو قریظہ کے یہودی اب تک غیر جانبدار تھے لیکن بنو نضیر کے یہودیوں نے ان کو بھی اپنے ساتھ ملا کر لشکر کفار میں شامل کر لینے کی کوشش شروع کر دی چنانچہ حیی بن اخطب ابو سفیان کے مشورہ سے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا پہلے تو اسنے اپنا دروازہ نہیں کھولا اور کہا کہ ہم محمد (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے حلیف ہیں اور ہم نے ان کو ہمیشہ اپنے عہد کا پابند پایا ہے اس لئے ہم ان سے عہد شکنی کرنا خلاف مروت سمجھتے ہیں مگر بنو نضیر کے یہودیوں نے اس قدر شدید اصرار کیا اور طرح طرح سے ورغلایا کہ بالآخر کعب بن اسد معاہدہ توڑنے کے لئے راضی ہو گیا، بنو قریظہ نے جب معاہدہ توڑ دیا اور کفار سے مل گئے تو کفار مکہ اور ابو سفیان خوشی سے باغ باغ ہو گئے۔
حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب اس کی خبر ملی تو آپ نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کو تحقیق حال کے لئے بنو قریظہ کے پاس بھیجا وہاں جا کر معلوم ہوا کہ واقعی بنو قریظہ نے معاہدہ توڑ دیا ہے جب ان دونوں معزز صحابیوں رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بنو قریظہ کو ان کا معاہدہ یاد دلایا تو ان بد ذات یہودیوں نے انتہائی بے حیائی کے ساتھ یہاں تک کہہ دیا کہ ہم کچھ نہیں جانتے کہ محمد (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کون ہیں؟ اور معاہدہ کس کو کہتے ہیں؟ ہمارا کوئی معاہدہ ہوا ہی نہیں تھا یہ سن کر دونوں حضرات واپس آگئے اور صورتحال سے حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو مطلع کیا تو آپ نے بلند آواز سے ”ﷲ اکبر” کہا اور فرمایا کہ مسلمانوں! تم اس سے نہ گھبراؤ نہ اس کا غم کرو اس میں تمہارے لئے بشارت ہے۔
(زرقانی جلد ۲ ص۱۱۳)
کفار کا لشکر جب آگے بڑھا تو سامنے خندق دیکھ کر ٹھہر گیا اور شہر مدینہ کا محاصرہ کر لیا اور تقریباً ایک مہینے تک کفار شہر مدینہ کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے پڑے رہے اور یہ محاصرہ اس سختی کے ساتھ قائم رہا کہ حضورصلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر کئی کئی فاقے گزر گئے۔
کفار نے ایک طرف تو خندق کا محاصرہ کر رکھا تھا اور دوسری طرف اس لئے حملہ کرنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی عورتیں اور بچے قلعوں میں پناہ گزیں تھے مگر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جہاں خندق کے مختلف حصوں پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو مقرر فرما دیا تھا کہ وہ کفار کے حملوں کا مقابلہ کرتے رہیں اسی طرح عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لئے بھی کچھ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو متعین کر دیا تھا۔
0 comments:
Post a Comment