ناخن تراشيے
ناخن نہ تراشنے والا شخص فطرتى سنتوں ميں سے ايك سنت كا مخالف ہے، اور اس ميں حكمت صفائى و ستھرائى ہے، كہ ناخنوں كے نيچے ميل كچيل جمع ہو جاتى ہے، اور پھر اس ميں كفار كى مشابہت سے بھى اجتناب ہے جو اپنے ناخن لمبے ركھتے ہيں، اور پھر حيوانوں اور وحشى جانور جن كے لمبے لمبے ناخن ہوتے ہيں ان سے بھى مشابہت نہيں ہوتى۔
آج عورتوں كى اكثريت ناخن لمبے ركھ كر پھر انہيں مختلف قسم اور رنگا رنگ نيل پالش سے رنگ كر وحشى جانوروں اور كفار كى مشابہت ميں پڑى ہوئى ہے، اور يہ منظر انتہائى قبيح اور غلط نظر آتا ہے، اور ہر عقل مند اور سليم فطرت ركھنے والے شخص كو اس سے نفرت پيدا ہوتى ہے، اور اسى طرح بعض لوگوں كى برى عادت يہ بھى ہے كہ وہ اپنا ايك ناخن لمبا ركھتے ہيں۔
يہ سب فطرتى سنت كى واضح اور بين مخالفت ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں سلامتى و عافيت نصيب فرمائے، اللہ تعالى ہى صحيح اور سيدھى راہ كى طرف راہنمائى كرنے والا ہے۔
ناخن لمبے كرنا اگر حرام نہ بھى ہوں تو يہ مكروہ ضرور ہيں، كيونكہ
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ناخن كاٹنے كے ليے وقت مقرر كرتے ہوئے حكم ديا كہ وہ چاليس يوم سے زيادہ نہ چھوڑيں جائيں۔
اسے امام مسلم نے كتاب الطہارت حديث نمبر ( 258 ) ميں روايت كيا ہے۔
يہ بات اور بھى بہت عجيب و غريب سى ہے كہ جو لوگ ترقى يافتہ اور شہرى ہونے كے دعوے كرتے ہيں وہ ان ناخنوں كو كاٹتے ہى نہيں بلكہ لمبے كرتے ہيں، حالانكہ ان ميں گندگى اور ميل كچيل پھنسى ہوتى ہے اور اس سے انسان حيوان كے مشابہ ہونے لگتا ہے۔
اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو چيز خون بہائے اور اس پر اللہ كا نام ليا گيا ہو اسے كھالو، دانت اور ناخن .... دانت تو ہڈى ہے، اور ناخن حبشيوں كى چھرى "
صحيح بخارى الشركة حديث نمبر ( 3507 ) صحيح مسلم كتاب الاضاحى حديث نمبر ( 1968 )۔
يعنى وہ اپنے ناخنوں كو چھرى بنا كر اس سے ذبح كرتے اور گوشت وغيرہ كاٹتے ہيں، يہ تو ان لوگوں كا طريقہ ہے جو وحشى جانوروں كى طرح ہيں۔
1۔ پس چالیس دن سے زائد ناخنوں کو لمبا کرنا ،ناجائز ہے۔
2۔چالیس دن آخری حد ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ چالیس دن بعد ہی کاٹے جائیں۔
3۔ انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ جیسے ہی انسان کے ناخن اتنے لمبے ہوں کہ ان میں میل کچیل کے جمع ہونے کے امکانات ہوں تو انہیں کاٹ لے اور یہی سنت مطہرہ ہے۔
4۔ ناخن لمبے ہونے سے کھانے پینے کے حرام ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے اگرچہ ناخنوں میں جمع شدہ میل کچیل انسان کے کھانے پینے کی اشیاء کے ذریعے اس کی صحت کے لیے ضرر رساں ہو سکتی ہے۔. —
ناخن نہ تراشنے والا شخص فطرتى سنتوں ميں سے ايك سنت كا مخالف ہے، اور اس ميں حكمت صفائى و ستھرائى ہے، كہ ناخنوں كے نيچے ميل كچيل جمع ہو جاتى ہے، اور پھر اس ميں كفار كى مشابہت سے بھى اجتناب ہے جو اپنے ناخن لمبے ركھتے ہيں، اور پھر حيوانوں اور وحشى جانور جن كے لمبے لمبے ناخن ہوتے ہيں ان سے بھى مشابہت نہيں ہوتى۔
آج عورتوں كى اكثريت ناخن لمبے ركھ كر پھر انہيں مختلف قسم اور رنگا رنگ نيل پالش سے رنگ كر وحشى جانوروں اور كفار كى مشابہت ميں پڑى ہوئى ہے، اور يہ منظر انتہائى قبيح اور غلط نظر آتا ہے، اور ہر عقل مند اور سليم فطرت ركھنے والے شخص كو اس سے نفرت پيدا ہوتى ہے، اور اسى طرح بعض لوگوں كى برى عادت يہ بھى ہے كہ وہ اپنا ايك ناخن لمبا ركھتے ہيں۔
يہ سب فطرتى سنت كى واضح اور بين مخالفت ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں سلامتى و عافيت نصيب فرمائے، اللہ تعالى ہى صحيح اور سيدھى راہ كى طرف راہنمائى كرنے والا ہے۔
ناخن لمبے كرنا اگر حرام نہ بھى ہوں تو يہ مكروہ ضرور ہيں، كيونكہ
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ناخن كاٹنے كے ليے وقت مقرر كرتے ہوئے حكم ديا كہ وہ چاليس يوم سے زيادہ نہ چھوڑيں جائيں۔
اسے امام مسلم نے كتاب الطہارت حديث نمبر ( 258 ) ميں روايت كيا ہے۔
يہ بات اور بھى بہت عجيب و غريب سى ہے كہ جو لوگ ترقى يافتہ اور شہرى ہونے كے دعوے كرتے ہيں وہ ان ناخنوں كو كاٹتے ہى نہيں بلكہ لمبے كرتے ہيں، حالانكہ ان ميں گندگى اور ميل كچيل پھنسى ہوتى ہے اور اس سے انسان حيوان كے مشابہ ہونے لگتا ہے۔
اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو چيز خون بہائے اور اس پر اللہ كا نام ليا گيا ہو اسے كھالو، دانت اور ناخن .... دانت تو ہڈى ہے، اور ناخن حبشيوں كى چھرى "
صحيح بخارى الشركة حديث نمبر ( 3507 ) صحيح مسلم كتاب الاضاحى حديث نمبر ( 1968 )۔
يعنى وہ اپنے ناخنوں كو چھرى بنا كر اس سے ذبح كرتے اور گوشت وغيرہ كاٹتے ہيں، يہ تو ان لوگوں كا طريقہ ہے جو وحشى جانوروں كى طرح ہيں۔
1۔ پس چالیس دن سے زائد ناخنوں کو لمبا کرنا ،ناجائز ہے۔
2۔چالیس دن آخری حد ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ چالیس دن بعد ہی کاٹے جائیں۔
3۔ انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ جیسے ہی انسان کے ناخن اتنے لمبے ہوں کہ ان میں میل کچیل کے جمع ہونے کے امکانات ہوں تو انہیں کاٹ لے اور یہی سنت مطہرہ ہے۔
4۔ ناخن لمبے ہونے سے کھانے پینے کے حرام ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے اگرچہ ناخنوں میں جمع شدہ میل کچیل انسان کے کھانے پینے کی اشیاء کے ذریعے اس کی صحت کے لیے ضرر رساں ہو سکتی ہے۔. —
0 comments:
Post a Comment