کسی امر کی تدبیر کرنا تقدیر کے خلاف تو نہیں؟
دنیا عالم اسباب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکومت بالغہ سے ایک چیز کو
دوسری چیز کے لیے سبب بنا دیا ہے اور سنت الٰہی یوں جاری ہے کہ سبب پایا
جائے تو مسبب (یعنی وہ دوسری چیز جس کے لیے یہ سبب ہے) پیدا ہو اور انھیں
اسباب کو عمل میں لانا اور انھیں کسب فعل کا زریعہ بنانا تدبیر ہے تو تدبیر
منافی تقدیر نہیں بلکہ تقدیر الٰہی کے موافق ہے۔ جس طرح تقدیر کو بھول کر
تدبیر پر پھولنا اور اسی پر اعتماد کر بیٹھنا کفارکی خصلت ہے یونہی تدبیر
کو محض عبث و فضول اور مہمل بنانا کھلے گمراہ یا سچے مجنون کا کام ہے۔
انبیاء کرام سے زیادہ تقدیر الٰہی پر کس کا ایما ن ہوگا؟ پھر وہ بھی ہمیشہ
تدبیر فرماتے اور اس کی راہیں بتاتے رہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کازر ہیں
بنانا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دس برس شعیب علیہ السلام کی بکریاں
اجرت پر چرانا قرآن کریم میں مذکورہے۔
0 comments:
Post a Comment