آدمی جب مختار ہے تو اعمال کی بازپرس کس بنا پر ہوگی؟
یہ ارادہ و اختیار جس کا انسان میں پایا جانا روشن اور بدیہی امر ہے
قطعاً یقینا اللہ عزوجل ہی کا پیدا کیا ہوا ہے، اس نے ہم میں ارادہ
واختیار پیدا کیا اس سے ہم اس کی عطا کے لائق مختار و صاحب اختیار ہوئے۔ یہ
ارادہ و اختیار ہماری اپنی ذات سے نہیں تو ہم ’’مختارکردہ‘‘ ہوئے ’’خود
مختار‘‘ نہ ہوئے کہ شتر بے مہار بنے پھریں اور بندہ کی یہ شان بھی نہیں کہ
خود مختار ہو سکے۔ بس یہی ارادہ اور یہی اختیار جو ہر شخص اپنے نفس میں دیکھ
رہا ہے، عقل کے ساتھ اس کا پایا جانا یہی دنیا میں شریعت کے احکام کا مدار
ہے اور اسی نباء پر آخرت میں جزا و سزا اور ثواب و عذاب اور اعمال کی پرسش
و حساب ہے۔ جزا اوسزا کے لیے جتنا اختیار چاہے و ہ بندے کو حاصل ہے۔
اؒلغرض اللہ تعالیٰ نے آدمی کو مثل پتھر او ر دیگر جمادات کے بے حس و حرکت پیدا نہیں کیا بلکہ اس کو ایک نوع اخیتار دیا ہے اور اس کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ بھلے برے اور نفع و نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا فرما دئیے ہیں کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اسی قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور اسی بناء پر اس سے مواخذ ہ ہے اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا ، دونوں گمراہی ہیں۔
اؒلغرض اللہ تعالیٰ نے آدمی کو مثل پتھر او ر دیگر جمادات کے بے حس و حرکت پیدا نہیں کیا بلکہ اس کو ایک نوع اخیتار دیا ہے اور اس کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ بھلے برے اور نفع و نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا فرما دئیے ہیں کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اسی قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور اسی بناء پر اس سے مواخذ ہ ہے اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا ، دونوں گمراہی ہیں۔
0 comments:
Post a Comment