جانوروں میں سب سے محترم گدھا
جانوروں میں سب سے زیادہ عزت
محترم گدھے کو ہی دی جاتی ہے۔آپ کا بیٹا ہو یا آپ کی بیگم کا بھائی، دوست
ہو یا دشمن، ڈاکٹر ہو یا انجینئر، چپراسی ہو یا منسٹر صبح سے شام تک آپ جس
کا بھی قصیدہ پڑھتے یا ذکر کرتے ہیں اسے گدھے کے نام سے یاد کرتے ہیں
ملاحظہ ہو:
خانصاحب اخبار پڑھتے ہی آگ بگولا ہوگئے اور چیخ کر انہوں نے بیوی سے کہا " دیکھا تمہارا گدھا (بیٹا) پھر فیل ہوگیا " ۔
اس کے دوستوں کی شان میں بھی انہوں نے قصیدہ پڑھ دیا " گدھوں کے ساتھ رہے گا تو اور کیا ہوگا "۔ ہمارا مالی بہت ایماندار تھا۔ کبھی ایک پھل بھی توڑ کر نہیں کھاتا تھا۔ ایک دن اس نے جب ابّا جان کے سامنے آم لاکر رکھے تو چکھتے ہی ابّا جان برس پڑے " گدھے تجھے اتنے سال ہوگئے نوکری کرتے ہوئے کھٹے میٹھے کی تمیز نہیں "۔
دھوبی بے چارہ تو ہمشہ ہی اس نام سے نوازا جاتا تھا۔ ارے گدھے تو نے میری نئی قمیض میں رنگ لگا دیا۔
جب آپ بغیر ٹکٹ کے سفر کر رہے ہوں اور ٹکٹ چیکر نے آپ سے ٹرین سے اتر جانے کو کہا ہو تب آپ دل ہی میں کہتے ہیں " گدھے کو اتنی عقل نہیں کہ میں چلتی ٹرین سے کیسے اتروں گا "۔
ہمارا نوکر کریم تو روز ہی اس خطاب سے نوازا جاتا تھا " ارے گدھے سالن میں کتنا نمک بھر دیا۔ بی پی بڑھا دیا میرا " اور کبھی کہتے اتنے سال ہوگئے نوکری کرتے کرتے۔ پھر بھی گدھے کا گدھا ہی رہا۔ چائے بھی ٹھیک سے بنانا نہیں آتا "۔ جس نے ہمارا گھر بنایا تھا۔ اس انجینئر کی بھی شامت آجاتی تھی ۔ کیا گھر بنایا گدھے نے جگہ جگہ سے پانی ٹپک رہا ہے۔ کبھی کبھی ڈاکٹروں کی بھی باری آجاتی ہے جب وہ برابر تشخیص نہ کر پائیں تو کہا جائے گا ۔ آج کے ڈاکٹر بالکل گدھے ہیں۔ معمولی سی بیماری کا بھی علاج نہیں آتا "۔
سب سے بڑا گدھا تو منسٹر ہوتا ہے ہر وقت اس کی شان میں قصیدہ پڑھا جاتا ہے۔
" کیا چیف منسٹر ہے۔ بالکل گدھا ہے۔ پوری اسٹیٹ کو تباہ کر کے رکھ دیا " ۔
ماتحتوں نے کام خراب کیا اور باس کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔"کیا گدھوں کا بازار ہے"۔
ایک دن جنگل کے تمام جانوروں نے مل کر کانفرنس کی جس کی صدارت جنگل کے بادشاہ یعنیٰ حضرت شیر نے کی۔ یہ محفل سنجیدگی سے اس بات پر غور کر رہی تھی کہ آخر گدھے میں ایسی کونسی بات ہے جو فضیلت دی جاتی ہے۔
شیر نے کہا، میں اس جنگل کا بادشاہ ہوں۔ میری بہادری کا ڈنکا ساری دنیا میں ہے۔ لیکن پھر بھی انسان میری شان میں قصیدہ نہیں پڑھتا۔ بھولے بھٹکے کوئی ماں پیار سے اپنے بیٹے کو کہہ دیتی ہے کہ میرا بیٹا تو شیر ہے۔ اکثر و بیشتر نانی، دادی میرا نام لے کر بچوں کو ڈراتی ہیں۔ اکیلے باہر نہ جانا شیر کھا لے گا۔ نہ انسان میرا گوشت کھاتا ہے نہ چربی۔ حالانکہ انسان نہ صرف جانور خور ہے بلکہ آدم خور بھی ہے۔ جانور تو جانور وہ سانپ، بچھو اور کیڑے مکوڑے بھی نہیں چھوڑتا ۔۔۔ ۔
ہر جانور ایک کے بعد ایک آتا اور اپنے تاثرات بیان کرتا۔ لومڑی نے کہا میں تو اتنی چالاک ہوں کہ اچھے اچھوں کے کان کاٹ لیتی ہوں۔ لیکن انسان مجھ سے بھی زیادہ چالاک ہے اس لیے کبھی کبھار ہی مجھے یاد کرتا ہے۔
سب سے زیادہ غم تو مورنی کو تھا۔ اس نے اپنے پر پھیلا دئیے اور کہنے لگی، کیا مجھ سے زیادہ خوبصورت کوئی اور ہے۔؟ کیا مجھ سے اچھا ڈانس کوئی کر سکتا ہے؟ کوئی میری تعریف ہی نہیں کرتا۔ مادھوری ڈکشت، کرینہ کپور، اور کٹرینہ کیف کے ڈانس کی تعریف ہوتی ہے۔ مجھے کچرے کی کنڈی میں ڈال دیتے ہیں۔ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا!
سارے جانور سر جوڑے بیٹھے تھے ایک معمر گدھا اٹھا۔ اس نے کہا ، بھائیوں کیوں تم لوگ خواہ مخواہ پریشاں ہوتے ہو۔ میری مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ مجھ میں اور انسانوں میں بہت کم فرق ہے۔ میری کم عقلی، میری نادانی، میری نافہمی، سب بالکل عام انسانوں جیسی ہے۔ انسانوں کو اچھے برے کی تمیز کہاں؟ نہ ان کے پاس عقل ہے ورنہ وہ اپنے ہی پیروں پر کیوں کلہاڑی مارتے۔ کیوں اپنا گھر اپنا ملک آگ میں جھونکتے؟ لیکن ایک بات جو انسان کو ہم سے ممتاز کر دیتی ہے۔ ہم کبھی اپنے بھائی کو خون نہیں کر سکے۔ کسی گدھے نے دوسرے گدھے کی جان نہیں لی۔ لیکن انسان! ایک ہی جھٹکے میں ہزاروں انسانوں کو ختم کر دیتا ہے۔ اس کا غصّہ شیر سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ وہ غصے میں شہر کے شہر تباہ کر دیتا ہے۔ وہ انسانوں کے خون کا پیاسا ہو جاتا ہے۔ اس گدھے کو یہ نہیں معلوم کہ سب خون ایک جیسے ہی ہوتے ہیں وہ خون کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر کے ان پر لیبل لگا دیتا ہے۔ اور پھر اس خون سے ہولی کھیلتا ہے۔ مذہب ، صوبہ، سرحد، پانی اور پتہ نہیں کتنے عنوانوں سے انہیں تقسیم کرتا۔ اپنے ہی عورتوں کی عصمت ریزی کرتا ہے۔ اپنے ہی بچوں کو نیزے پر لٹکا دیتا ہے۔
پچھلے مہینے گدھوں کی انٹرنیشل کانفرنس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ انسانوں کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی جائے کہ خدارا ہمیں اپنے صف میں کھینچ کر نہ لایئے۔ ہمیں دھوبی کا گدھا ہی رہنے دیجئے۔ ہم اپنی شکست مانتے ہیں آپ عظیم ہیں۔ آپ گدھوں کے سردار ہیں!۔۔۔
خانصاحب اخبار پڑھتے ہی آگ بگولا ہوگئے اور چیخ کر انہوں نے بیوی سے کہا " دیکھا تمہارا گدھا (بیٹا) پھر فیل ہوگیا " ۔
اس کے دوستوں کی شان میں بھی انہوں نے قصیدہ پڑھ دیا " گدھوں کے ساتھ رہے گا تو اور کیا ہوگا "۔ ہمارا مالی بہت ایماندار تھا۔ کبھی ایک پھل بھی توڑ کر نہیں کھاتا تھا۔ ایک دن اس نے جب ابّا جان کے سامنے آم لاکر رکھے تو چکھتے ہی ابّا جان برس پڑے " گدھے تجھے اتنے سال ہوگئے نوکری کرتے ہوئے کھٹے میٹھے کی تمیز نہیں "۔
دھوبی بے چارہ تو ہمشہ ہی اس نام سے نوازا جاتا تھا۔ ارے گدھے تو نے میری نئی قمیض میں رنگ لگا دیا۔
جب آپ بغیر ٹکٹ کے سفر کر رہے ہوں اور ٹکٹ چیکر نے آپ سے ٹرین سے اتر جانے کو کہا ہو تب آپ دل ہی میں کہتے ہیں " گدھے کو اتنی عقل نہیں کہ میں چلتی ٹرین سے کیسے اتروں گا "۔
ہمارا نوکر کریم تو روز ہی اس خطاب سے نوازا جاتا تھا " ارے گدھے سالن میں کتنا نمک بھر دیا۔ بی پی بڑھا دیا میرا " اور کبھی کہتے اتنے سال ہوگئے نوکری کرتے کرتے۔ پھر بھی گدھے کا گدھا ہی رہا۔ چائے بھی ٹھیک سے بنانا نہیں آتا "۔ جس نے ہمارا گھر بنایا تھا۔ اس انجینئر کی بھی شامت آجاتی تھی ۔ کیا گھر بنایا گدھے نے جگہ جگہ سے پانی ٹپک رہا ہے۔ کبھی کبھی ڈاکٹروں کی بھی باری آجاتی ہے جب وہ برابر تشخیص نہ کر پائیں تو کہا جائے گا ۔ آج کے ڈاکٹر بالکل گدھے ہیں۔ معمولی سی بیماری کا بھی علاج نہیں آتا "۔
سب سے بڑا گدھا تو منسٹر ہوتا ہے ہر وقت اس کی شان میں قصیدہ پڑھا جاتا ہے۔
" کیا چیف منسٹر ہے۔ بالکل گدھا ہے۔ پوری اسٹیٹ کو تباہ کر کے رکھ دیا " ۔
ماتحتوں نے کام خراب کیا اور باس کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔"کیا گدھوں کا بازار ہے"۔
ایک دن جنگل کے تمام جانوروں نے مل کر کانفرنس کی جس کی صدارت جنگل کے بادشاہ یعنیٰ حضرت شیر نے کی۔ یہ محفل سنجیدگی سے اس بات پر غور کر رہی تھی کہ آخر گدھے میں ایسی کونسی بات ہے جو فضیلت دی جاتی ہے۔
شیر نے کہا، میں اس جنگل کا بادشاہ ہوں۔ میری بہادری کا ڈنکا ساری دنیا میں ہے۔ لیکن پھر بھی انسان میری شان میں قصیدہ نہیں پڑھتا۔ بھولے بھٹکے کوئی ماں پیار سے اپنے بیٹے کو کہہ دیتی ہے کہ میرا بیٹا تو شیر ہے۔ اکثر و بیشتر نانی، دادی میرا نام لے کر بچوں کو ڈراتی ہیں۔ اکیلے باہر نہ جانا شیر کھا لے گا۔ نہ انسان میرا گوشت کھاتا ہے نہ چربی۔ حالانکہ انسان نہ صرف جانور خور ہے بلکہ آدم خور بھی ہے۔ جانور تو جانور وہ سانپ، بچھو اور کیڑے مکوڑے بھی نہیں چھوڑتا ۔۔۔ ۔
ہر جانور ایک کے بعد ایک آتا اور اپنے تاثرات بیان کرتا۔ لومڑی نے کہا میں تو اتنی چالاک ہوں کہ اچھے اچھوں کے کان کاٹ لیتی ہوں۔ لیکن انسان مجھ سے بھی زیادہ چالاک ہے اس لیے کبھی کبھار ہی مجھے یاد کرتا ہے۔
سب سے زیادہ غم تو مورنی کو تھا۔ اس نے اپنے پر پھیلا دئیے اور کہنے لگی، کیا مجھ سے زیادہ خوبصورت کوئی اور ہے۔؟ کیا مجھ سے اچھا ڈانس کوئی کر سکتا ہے؟ کوئی میری تعریف ہی نہیں کرتا۔ مادھوری ڈکشت، کرینہ کپور، اور کٹرینہ کیف کے ڈانس کی تعریف ہوتی ہے۔ مجھے کچرے کی کنڈی میں ڈال دیتے ہیں۔ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا!
سارے جانور سر جوڑے بیٹھے تھے ایک معمر گدھا اٹھا۔ اس نے کہا ، بھائیوں کیوں تم لوگ خواہ مخواہ پریشاں ہوتے ہو۔ میری مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ مجھ میں اور انسانوں میں بہت کم فرق ہے۔ میری کم عقلی، میری نادانی، میری نافہمی، سب بالکل عام انسانوں جیسی ہے۔ انسانوں کو اچھے برے کی تمیز کہاں؟ نہ ان کے پاس عقل ہے ورنہ وہ اپنے ہی پیروں پر کیوں کلہاڑی مارتے۔ کیوں اپنا گھر اپنا ملک آگ میں جھونکتے؟ لیکن ایک بات جو انسان کو ہم سے ممتاز کر دیتی ہے۔ ہم کبھی اپنے بھائی کو خون نہیں کر سکے۔ کسی گدھے نے دوسرے گدھے کی جان نہیں لی۔ لیکن انسان! ایک ہی جھٹکے میں ہزاروں انسانوں کو ختم کر دیتا ہے۔ اس کا غصّہ شیر سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ وہ غصے میں شہر کے شہر تباہ کر دیتا ہے۔ وہ انسانوں کے خون کا پیاسا ہو جاتا ہے۔ اس گدھے کو یہ نہیں معلوم کہ سب خون ایک جیسے ہی ہوتے ہیں وہ خون کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر کے ان پر لیبل لگا دیتا ہے۔ اور پھر اس خون سے ہولی کھیلتا ہے۔ مذہب ، صوبہ، سرحد، پانی اور پتہ نہیں کتنے عنوانوں سے انہیں تقسیم کرتا۔ اپنے ہی عورتوں کی عصمت ریزی کرتا ہے۔ اپنے ہی بچوں کو نیزے پر لٹکا دیتا ہے۔
پچھلے مہینے گدھوں کی انٹرنیشل کانفرنس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ انسانوں کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی جائے کہ خدارا ہمیں اپنے صف میں کھینچ کر نہ لایئے۔ ہمیں دھوبی کا گدھا ہی رہنے دیجئے۔ ہم اپنی شکست مانتے ہیں آپ عظیم ہیں۔ آپ گدھوں کے سردار ہیں!۔۔۔
0 comments:
Post a Comment