صنفی دہشت گردی-
عرفان دفتر سے تھکا ماندہ گھر
لوٹ رہا تھا۔ دفتری الجھنیں، باس کی بدمزاجی، ساتھیوں کی نوک جھوک نے اعصاب
شل کر رکھے تھے۔ اپنی سوچوں میں گم چلا جا رہا تھا۔ نگاہ اٹھا کر سامنے جو
دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا ساری ناگواریاں ہوا ہو گئیں۔ نگاہ جھکانا
بھول ہی گیا۔ خوبصورت حسن مجسم، حسین شوخ رنگوں میں ملبوس آنکھوں کے راستے
اندر تک اتر گئی۔ عرفان کی انہماک نظروں کی تپش اس حسین سراپے نے محسوس کیں۔ خوشبو کا مرغولا عرفان کو معطر کر گیا۔
کمال ہے بھئی میں تو ہوش ہی کھو بیٹھا۔ اس نے سوچا پرہیز گار تو ایسا نہیں ہوں تا ہم گھٹی میں پڑی شرافت تو تھی وہ بھی ہوا ہو گئی۔ ندیدوں کی طرح اسے تک رہا تھا۔ خیر وہ تھی بھی ایسی ہی۔ہانکے پکارے تو کہہ رہی تھی “ہوں دیکھنے کی چیز، مجھے بار بار دیکھ”۔
جو عورت اپنا آپ دکھانا چاہتی ہے، اسے دیکھا ہی جانا چاہیے۔ ‘حسن و جمال’ لیپا پوتی سے ٹرے میں سجا کر پیش کر دیا جائے تو اسے خراج تحسین تو ادا کیا جائے گا ہی۔ بیچاری نے اتنی مشقت بننے سنورنے اور دکھانے کی یونہی تو نہیں اٹھائی اور جو نہیں دکھانا چاہتیں، وہ سر منہ لپیٹ کر نکلتی ہیں۔ انہیں تو دیکھ کر خود بخود نظریں جھک جاتیں ہیں، حیا آجاتی ہے کہ اب اس ملفوف و ملبوس کے اندر کون جھانکے۔ عرفان نے بے چین ہو کر کچوکے دیرے ضمیر کا منہ بند کروادیا۔
انہی سوچوں میں کھویا ہوا، حسین سراپا آنکھوں کے سامنے کہکشاں بکھیرتا جا رہا تھا کہ وہ گھر کے دروازے پر آن پہنچا۔ گھنٹی دی، عرفان کی مخصوص گھنٹی کی آواز سن کر سدرہ لپک کر دروازے پر آئی۔کاموں میں الجھی پڑی تھی۔ عرفان زرا وقت سے پہلے ہی آگیا تھا۔ دروازہ کھلا تو سامنے سدرہ سر جھاڑ منہ پھاڑ کھڑی تھی۔ لہسن کا تڑکا لگا کر سیدھی کچن سے آرہی تھی۔ عرفان جو خوشبو کے مرغولے اور حسن کے سحر سے بہکا بہکایا چلا آرہا تھا۔ یکا یک تلخی اور ناگواری اس کے اندر تک اتر گئی۔ لہسن کی بو،الول جلول سا حلیہ، بکھرے بکھرے بال، بچوں کے بیچ ہونق ہوئی سدرہ ۔۔۔ !
‘کیا یہ ہمیشہ سےایسے ہی تھی یا آج خصوصی بھتنی لگ رہی ہے؟’ بدمزاجی کا بھبھکا اس کے اندر سے اٹھا اور منہ کے راستے سدرہ پر برس پڑا۔ چاہت سے لپک کر آگے بڑھ کر اس کے ہاتھوں سے بیگ پکڑتی سدرہ کی محبت ۔۔۔ مسکراہٹ ٹھٹھر کر رہ گئی۔ گھڑوں پانی پڑ گیا۔
‘انہیں کیا ہوا ہے؟’ اس نے سوچا میں تو بچے سنبھالتی، کام کرتے ٹوٹ گئی ان کے انتظار میں جلدی جلدی کام نمٹا رہی تھی۔ کپڑے دھوئے ہانڈی پکائی۔ دال کے ساتھ کباب اور سویٹ ڈش خصوصیت کے ساتھ بنائی کہ تھکے ہارے آئیں گے کوئی کمی نہ رہ جائے۔ مگر آتے ہی ماتھے پر پڑتے سو بل اور لایعنی تلخ کلامی ۔۔۔ آخر ہوا کیا؟ سدرہ کی تھکن کئی گناہ بڑھ گئی۔ “کاش اس شخص کو یہ معلوم ہوتا کہ اس کی ایک مسکراہٹ اور میٹھا بول میری ساری تھکاوٹ دور کر دیتاہے اور اس کی ناگواری اور بد مزاجی میرے اندر تک زہر گھول دیتی ہے۔ سارے منظر تاریک ہو جاتے ہیں”۔ سدرہ نے ٹھنڈی آہ بھری اور واپس لوٹ گئی۔
“بس کرو ۔۔۔ اپنا کام درست رکھو خوامخواہ مت جلو کڑھو” اندر سےایک نصیحت اٹھی۔ “ہاں ۔۔۔ میرا کوئی قصور تو ہو۔ میں تو کوئی کوڑا دان تو نہیں کہ باہر کسی سے لڑ بھڑ کر آئو اور ساری کڑھن بیوی پر اگل دہ نا جانے انہیں کیا ہوا ۔۔۔ !”
سدرہ بے چاری بے خبر کیا جانے اسے کیا ہوا ۔۔۔ اتنے میں ننھے ہارون نے اس کا دامن کھینچا۔ذرا زور سے کھنچ گیا۔ وہ الجھی بگڑی تو تھی ہی۔۔۔ برس پڑی جھٹ اس کے گال پر تمانچا جڑ دیا۔
“ہزار دفع منع کیا ہے منہ سے بولا کرو۔ قمیض کا دامن نہ کھینچا کرو بدتمیز کہیں کا” سدرہ چلائی۔ ہارون نے آنسو بھر کر معصوم چہرے پر حیرت سجائے اسے دیکھا “مگر میں تو آپ کو بتانے آیا تھا کہ میں نے سارے کھلونے اٹھا لیے، کمرہ صاف کر دیا اور آپ نے خوش ہونے کے بجائے مجھے مارا ۔۔۔ ” وہ یہ کہی کر روتا ہوا ابو کے دامن میں پناہ لینے چل دیا۔ سدرہ اندر سے دکھی ہو گئی ہارون کا کیا قصور تھا؟ میں نے معصوم بچے پر غصہ نکال دیا۔
ادھر ہارون میاں جو ابو کے پاس روتے روتے پہنچے کہ وہ چمکاریں گے، گود میں اٹھائیں گے، چپ کرائیں گے وہاں بھی منظر دوسرا نکلا۔ عرفان حسینہ، اور اس کے رد عمل میں سدرہ پر تلخی کی یلغار سے سنبھلا نہ تھا کہ روتا دھوتا ہارون آ پہنچا۔۔۔
“کیا مصیبت ہے تمہیں کیا ہو گیا؟ تھکے ہارے آئو تو آگے سے استقبال کو یہ بلائیں موجود ہاتیں ہیں۔” عفرہ تو پہلے ہی اماں ابا کے مزاج کو گرم سرد دیکھ کر کونے میں جا دبکی تھی۔ ہارون کی شامت اب ابو کے ہاتھ آگئی وہ سسکتا ہوا کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ کر ہچکیاں بھر بھر کر رونے لگا۔ ” کوئی مجھے پیار نہیں کرتا امی بھی مارتیں ہیں اور ابو بھی ڈانٹتے ہیں۔”
پورا گھر گویا دھوئیں سے بھر گیا۔ ننھی سی جنت، یکا یک جہنم زار بن گئی۔
سدرہ نے اپنے آپ کو سنبھالا “چلو چھوڑو ۔۔۔ غصہ تھوک دو، تمہیں کیا، ان کے بے تکے رویے پر مجھے برا بن کر دکھانے کی کیا ضرورت؟ ان کا عمل ان کے لیے، میرا عمل میرے لیے، چلو جلدی سے کھانا رکھو” ایک تلخ گھوٹ غصے کا وہ پی گئی۔ اب وہ بہتر محسوس کر رہی تھی۔
ہارون کو اس نے پیار کیا ، جو روتے روتے سو گیا تھا۔ اللہ سے معافی مانگی اور منہ دھو کر کپڑے بدلنے چلی گئی۔ اب خوشبو میں بس کر ، بال سنوار کر پاکیزہ مسکراہٹ کے ساتھ وہ عرفان کے سامنے کھڑی تھی۔ عرفان نے حیرت سے اسے دیکھا اور اپنی بد تہذیبی پر اندر تک شرمسار ہو گیا۔
“کتنی اچھی ہو تم ۔۔۔” دل نے تو کہا ۔۔۔ مگر انا نے اسے یہ جملہ کہنے نہ دیا۔ کہہ دیتا تو گل و گلزار کھل اٹھتے! بہر صورت اب اتنا احسان ہی بہت ہوگا کہ میں اٹھ کر خاموشی سے کھانا کھا لوں۔ یہ احسان میرا بہت کافی ہے۔ شیطان نے اس کی مردانگی کو للکارا۔ عرفان نے سدرہ کے دیکھتے ہوئے سوچا “اچھی بھلی خوبصورت بیوی اللہ نے مجھے دی ہےجس کے چہرے پر وفا شعاری اور صرف میرا ہونے کی پاکیزگی ہے” معصومیت اور سچائی کا نور سدرہ کے سراپے میں عجب رنگ بھر رہا تھا۔ عرفان کو پچھتاوے نے آلیا۔ ضمیر نے کچوکا دیا۔
“میں نے تمہیں ٹوکا نہ تھا مت گھور گھور کر اس حرافا کو دیکھو جس نے تمہارے گھر کو دھواں دھواں کر دیا۔ صرف ایک نظر تھی جو تمہیں جھکا لینی تھی اور صرف ایک حجاب تھا جو اس لڑکی کے ذمے تھا”
عرفان حیران رہ گیا نہ جانے اس بنی سنوری نے کتنے گھروں میں دکھ بھرا ہوگا۔ کتنے شادی شدہ مردوں کو نا شکرا بنایا ہو گا۔ کتنی گھر بیٹھی پاکیزہ شعار بیویوں کو بے وقت کیا ہو گا۔ کتنے غیر شادی شدہ کو گناہ پر اکسایا ہو گا۔ وہ دعوت گناہ جو ایک سجا سنورا سراپا دے گزرتا ہے اللہ نہ کرے وہ اکساہٹ کسی غریب کی بچی پر جا برسے۔ اللہ ۔۔۔ یہ تو صنفی دہشت گردی ہے! یہ عورتیں نہیں، غارت گر ایمان دھماکہ خیز مواد جسم سے باندھے پھرتی ہیں۔ ایمان بھک سے اڑ جاتا ہے۔ ہوش و حواس کے پرخچے اڑ جاتے ہیں۔ زخمی زخمی سا گھر پہنچنے والا اس پوری افراتفری سے گزرتا ہے جو آج میرے بیوی بچوں کو میرنے ہونق ہوجانے سے سہنی پڑی ۔۔ اللہ میاں مجھے معاف کردے۔۔۔ ٹھنڈی سانس بھر کر وہ کھانے کے لیے آ بیٹھا ۔
“زبردست بھئی ۔۔۔ سخت بھوک لگی تھی، اتنا اچھا کھانا، اللہ نے تمہارے ہاتھ میں خوب ذائقہ رکھا ہے” تلافی مافات کو خلاف معمول اس نے تعریف کر ڈالی! اور سدرہ صبر کے مٹھے پھل کا مزہ لے رہی تھی--
کمال ہے بھئی میں تو ہوش ہی کھو بیٹھا۔ اس نے سوچا پرہیز گار تو ایسا نہیں ہوں تا ہم گھٹی میں پڑی شرافت تو تھی وہ بھی ہوا ہو گئی۔ ندیدوں کی طرح اسے تک رہا تھا۔ خیر وہ تھی بھی ایسی ہی۔ہانکے پکارے تو کہہ رہی تھی “ہوں دیکھنے کی چیز، مجھے بار بار دیکھ”۔
جو عورت اپنا آپ دکھانا چاہتی ہے، اسے دیکھا ہی جانا چاہیے۔ ‘حسن و جمال’ لیپا پوتی سے ٹرے میں سجا کر پیش کر دیا جائے تو اسے خراج تحسین تو ادا کیا جائے گا ہی۔ بیچاری نے اتنی مشقت بننے سنورنے اور دکھانے کی یونہی تو نہیں اٹھائی اور جو نہیں دکھانا چاہتیں، وہ سر منہ لپیٹ کر نکلتی ہیں۔ انہیں تو دیکھ کر خود بخود نظریں جھک جاتیں ہیں، حیا آجاتی ہے کہ اب اس ملفوف و ملبوس کے اندر کون جھانکے۔ عرفان نے بے چین ہو کر کچوکے دیرے ضمیر کا منہ بند کروادیا۔
انہی سوچوں میں کھویا ہوا، حسین سراپا آنکھوں کے سامنے کہکشاں بکھیرتا جا رہا تھا کہ وہ گھر کے دروازے پر آن پہنچا۔ گھنٹی دی، عرفان کی مخصوص گھنٹی کی آواز سن کر سدرہ لپک کر دروازے پر آئی۔کاموں میں الجھی پڑی تھی۔ عرفان زرا وقت سے پہلے ہی آگیا تھا۔ دروازہ کھلا تو سامنے سدرہ سر جھاڑ منہ پھاڑ کھڑی تھی۔ لہسن کا تڑکا لگا کر سیدھی کچن سے آرہی تھی۔ عرفان جو خوشبو کے مرغولے اور حسن کے سحر سے بہکا بہکایا چلا آرہا تھا۔ یکا یک تلخی اور ناگواری اس کے اندر تک اتر گئی۔ لہسن کی بو،الول جلول سا حلیہ، بکھرے بکھرے بال، بچوں کے بیچ ہونق ہوئی سدرہ ۔۔۔ !
‘کیا یہ ہمیشہ سےایسے ہی تھی یا آج خصوصی بھتنی لگ رہی ہے؟’ بدمزاجی کا بھبھکا اس کے اندر سے اٹھا اور منہ کے راستے سدرہ پر برس پڑا۔ چاہت سے لپک کر آگے بڑھ کر اس کے ہاتھوں سے بیگ پکڑتی سدرہ کی محبت ۔۔۔ مسکراہٹ ٹھٹھر کر رہ گئی۔ گھڑوں پانی پڑ گیا۔
‘انہیں کیا ہوا ہے؟’ اس نے سوچا میں تو بچے سنبھالتی، کام کرتے ٹوٹ گئی ان کے انتظار میں جلدی جلدی کام نمٹا رہی تھی۔ کپڑے دھوئے ہانڈی پکائی۔ دال کے ساتھ کباب اور سویٹ ڈش خصوصیت کے ساتھ بنائی کہ تھکے ہارے آئیں گے کوئی کمی نہ رہ جائے۔ مگر آتے ہی ماتھے پر پڑتے سو بل اور لایعنی تلخ کلامی ۔۔۔ آخر ہوا کیا؟ سدرہ کی تھکن کئی گناہ بڑھ گئی۔ “کاش اس شخص کو یہ معلوم ہوتا کہ اس کی ایک مسکراہٹ اور میٹھا بول میری ساری تھکاوٹ دور کر دیتاہے اور اس کی ناگواری اور بد مزاجی میرے اندر تک زہر گھول دیتی ہے۔ سارے منظر تاریک ہو جاتے ہیں”۔ سدرہ نے ٹھنڈی آہ بھری اور واپس لوٹ گئی۔
“بس کرو ۔۔۔ اپنا کام درست رکھو خوامخواہ مت جلو کڑھو” اندر سےایک نصیحت اٹھی۔ “ہاں ۔۔۔ میرا کوئی قصور تو ہو۔ میں تو کوئی کوڑا دان تو نہیں کہ باہر کسی سے لڑ بھڑ کر آئو اور ساری کڑھن بیوی پر اگل دہ نا جانے انہیں کیا ہوا ۔۔۔ !”
سدرہ بے چاری بے خبر کیا جانے اسے کیا ہوا ۔۔۔ اتنے میں ننھے ہارون نے اس کا دامن کھینچا۔ذرا زور سے کھنچ گیا۔ وہ الجھی بگڑی تو تھی ہی۔۔۔ برس پڑی جھٹ اس کے گال پر تمانچا جڑ دیا۔
“ہزار دفع منع کیا ہے منہ سے بولا کرو۔ قمیض کا دامن نہ کھینچا کرو بدتمیز کہیں کا” سدرہ چلائی۔ ہارون نے آنسو بھر کر معصوم چہرے پر حیرت سجائے اسے دیکھا “مگر میں تو آپ کو بتانے آیا تھا کہ میں نے سارے کھلونے اٹھا لیے، کمرہ صاف کر دیا اور آپ نے خوش ہونے کے بجائے مجھے مارا ۔۔۔ ” وہ یہ کہی کر روتا ہوا ابو کے دامن میں پناہ لینے چل دیا۔ سدرہ اندر سے دکھی ہو گئی ہارون کا کیا قصور تھا؟ میں نے معصوم بچے پر غصہ نکال دیا۔
ادھر ہارون میاں جو ابو کے پاس روتے روتے پہنچے کہ وہ چمکاریں گے، گود میں اٹھائیں گے، چپ کرائیں گے وہاں بھی منظر دوسرا نکلا۔ عرفان حسینہ، اور اس کے رد عمل میں سدرہ پر تلخی کی یلغار سے سنبھلا نہ تھا کہ روتا دھوتا ہارون آ پہنچا۔۔۔
“کیا مصیبت ہے تمہیں کیا ہو گیا؟ تھکے ہارے آئو تو آگے سے استقبال کو یہ بلائیں موجود ہاتیں ہیں۔” عفرہ تو پہلے ہی اماں ابا کے مزاج کو گرم سرد دیکھ کر کونے میں جا دبکی تھی۔ ہارون کی شامت اب ابو کے ہاتھ آگئی وہ سسکتا ہوا کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ کر ہچکیاں بھر بھر کر رونے لگا۔ ” کوئی مجھے پیار نہیں کرتا امی بھی مارتیں ہیں اور ابو بھی ڈانٹتے ہیں۔”
پورا گھر گویا دھوئیں سے بھر گیا۔ ننھی سی جنت، یکا یک جہنم زار بن گئی۔
سدرہ نے اپنے آپ کو سنبھالا “چلو چھوڑو ۔۔۔ غصہ تھوک دو، تمہیں کیا، ان کے بے تکے رویے پر مجھے برا بن کر دکھانے کی کیا ضرورت؟ ان کا عمل ان کے لیے، میرا عمل میرے لیے، چلو جلدی سے کھانا رکھو” ایک تلخ گھوٹ غصے کا وہ پی گئی۔ اب وہ بہتر محسوس کر رہی تھی۔
ہارون کو اس نے پیار کیا ، جو روتے روتے سو گیا تھا۔ اللہ سے معافی مانگی اور منہ دھو کر کپڑے بدلنے چلی گئی۔ اب خوشبو میں بس کر ، بال سنوار کر پاکیزہ مسکراہٹ کے ساتھ وہ عرفان کے سامنے کھڑی تھی۔ عرفان نے حیرت سے اسے دیکھا اور اپنی بد تہذیبی پر اندر تک شرمسار ہو گیا۔
“کتنی اچھی ہو تم ۔۔۔” دل نے تو کہا ۔۔۔ مگر انا نے اسے یہ جملہ کہنے نہ دیا۔ کہہ دیتا تو گل و گلزار کھل اٹھتے! بہر صورت اب اتنا احسان ہی بہت ہوگا کہ میں اٹھ کر خاموشی سے کھانا کھا لوں۔ یہ احسان میرا بہت کافی ہے۔ شیطان نے اس کی مردانگی کو للکارا۔ عرفان نے سدرہ کے دیکھتے ہوئے سوچا “اچھی بھلی خوبصورت بیوی اللہ نے مجھے دی ہےجس کے چہرے پر وفا شعاری اور صرف میرا ہونے کی پاکیزگی ہے” معصومیت اور سچائی کا نور سدرہ کے سراپے میں عجب رنگ بھر رہا تھا۔ عرفان کو پچھتاوے نے آلیا۔ ضمیر نے کچوکا دیا۔
“میں نے تمہیں ٹوکا نہ تھا مت گھور گھور کر اس حرافا کو دیکھو جس نے تمہارے گھر کو دھواں دھواں کر دیا۔ صرف ایک نظر تھی جو تمہیں جھکا لینی تھی اور صرف ایک حجاب تھا جو اس لڑکی کے ذمے تھا”
عرفان حیران رہ گیا نہ جانے اس بنی سنوری نے کتنے گھروں میں دکھ بھرا ہوگا۔ کتنے شادی شدہ مردوں کو نا شکرا بنایا ہو گا۔ کتنی گھر بیٹھی پاکیزہ شعار بیویوں کو بے وقت کیا ہو گا۔ کتنے غیر شادی شدہ کو گناہ پر اکسایا ہو گا۔ وہ دعوت گناہ جو ایک سجا سنورا سراپا دے گزرتا ہے اللہ نہ کرے وہ اکساہٹ کسی غریب کی بچی پر جا برسے۔ اللہ ۔۔۔ یہ تو صنفی دہشت گردی ہے! یہ عورتیں نہیں، غارت گر ایمان دھماکہ خیز مواد جسم سے باندھے پھرتی ہیں۔ ایمان بھک سے اڑ جاتا ہے۔ ہوش و حواس کے پرخچے اڑ جاتے ہیں۔ زخمی زخمی سا گھر پہنچنے والا اس پوری افراتفری سے گزرتا ہے جو آج میرے بیوی بچوں کو میرنے ہونق ہوجانے سے سہنی پڑی ۔۔ اللہ میاں مجھے معاف کردے۔۔۔ ٹھنڈی سانس بھر کر وہ کھانے کے لیے آ بیٹھا ۔
“زبردست بھئی ۔۔۔ سخت بھوک لگی تھی، اتنا اچھا کھانا، اللہ نے تمہارے ہاتھ میں خوب ذائقہ رکھا ہے” تلافی مافات کو خلاف معمول اس نے تعریف کر ڈالی! اور سدرہ صبر کے مٹھے پھل کا مزہ لے رہی تھی--
0 comments:
Post a Comment