قرآت کا بیان
١. حالتِ اقامت ( یعنی حضر) میں جبکہ اطمنان ہو تو سنت یہ ہے کہ نماز فجر کی دونوں رکعتوں میں الحمد کے علاوہ چالیس یا پچاس آیتیں پڑھےاور ایک روایت کے مطابق ساٹھ سے سو تک پڑھے ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں بھی فجر کے مثل یا اس سے کم پڑھے، عصر اور عشا کی پہلی دو رکعت میں الحمد کے سوا پندرہ یا بیس آیتیں اور مغرب میں پہلی دو رکعتوں میں سے ہر رکعت میں پانچ آیتیں یا کوئی چھوٹی صورة پڑھے، یہ آیتوں کی مقدار کے لحاظ سے قرآت مسنونہ کا ذکر تھا سورتوں کے لحاظ سے قرآت مسنونہ یہ ہے کہ فجر اور ظہر میں طوال مفصل پڑھے جو سورة حُجرات سے سورة بُرُوج تک ہیں، عصر اور عشا میں اوساط مفصل پڑھے جو والطارق سے لم یکن تک ہیں، اور مغرب میں قصار مفصل پڑھے وہ اذا زلزلت الارض سے آخر قرآن یعنی والناس تک ہیں، یہ دونوں طریقے سنت ہیں لیکن مفصلات کا اختیار کرنا مستحسن ہے
٢. اگر حالتِ اقامت میں اطمنان نہ ہو مثلاً وقت کی تنگی ہو یا اپنی جان و مال کا خوف ہو تو سنت یہ ہے کہ اس قدر پڑھ لے جس سے وقت اور امن فوت نہ ہو جائے
٣. حالت سفر میں اگر اطمنان ہو مثلاً وقت میں وسعت اور امن و قرار ہے تو قرآت مسنونہ میں سے جس کا ذکر حالتِ اقامت میں ہوا ادنیٰ درجہ اختیار کرے مثلاً فجر و ظہر میں طوالِ مفصل کی کوئی چھوٹی سورة مثلاً سورة بروج یا انشقاق یا اس مانند کوئی اور سورة دونوں رکعتوں میں پڑھے عصر و عشا میں اوساط مفصل میں سے کوئی چھوٹی سورة اور مغرب میں بہت چھوٹی سورتیں پڑھے
٤. اگر سفر میں اطمنان نہ ہو تو حسبِ حال و ضرورت جو بھی سورة چاہے پڑھ لے خواہ سب سے چھوٹی سورة ہو یا کم سے کم تین آیتیں یا جو قرائت تین آیتوں کی مقدار ہو پڑھ لے
٥. قرآت مسنونہ کا حکم فرضوں میں منفرد کے لئے بھی وہی ہے جو امام کے لئے ہے
٦. امام کو چاہئے کہ سنت قرآت پر زیادتی کر کے مقتدیوں پر نماز بھاری نہ کرے
٧. فجر کی نماز میں پہلی رکعت میں دوسری رکعت سے طویل قرآت کرے باقی نمازوں میں برابر کرے بعض کے نزدیک اس پر فتویٰ ہے اور بعض کے نزدیک فتویٰ اس پر ہے کہ سب نمازوں میں پہلی رکعت دوسری سے طویل کرے
٨. دوسری رکعت کو پہلی رکعت پر تین آیتوں کی مقدار یا اور زیادہ لمبا کرنا مکروہِ تنزیہی ہے اس سے کم کی زیادتی مکروہ نہیں
٩. شرعیت نے نماز میں آسانی کے لئے ہر جگہ سے قرآن مجید پڑھنے کی اجازت دی ہے اس لئے نمازکے لئے کوئی سورة مقرر کر لینا مکروہ ہے لیکن اگر آسانی کے لئے ہو افضلیت یا متعین کرنے کا گمان نہ ہو تو مکروہ نہیں، جو سورتیں جن نمازوں میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پڑھنا ثابت ہیں ان کو ان نمازوں میں تبرکاً پڑھا کرے مثلاً فجر کی سنتوں کی پہلی رکعت میں قل یا ایھالکافرون اور دوسری رکعت میں قل ھو اللّٰہ احد پڑھنا اور نماز وتر میں پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ اور دوسری میں قل یا ایھا لکافرون اور تیسری میں قل ھو اللّٰہ احد پڑھنا حضورِ انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور کبھی کبھی ان کے علاوہ بھی پڑھا کرے کیونکہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بھی اُن کا ہمیشہ پڑھنا ثابت نہیں ہے، جس شخص کو اپنی مقررہ سورتوں کے سوا دوسری یاد نہ ہوں اس کے لئے بھی مکروہ نہیں، نیز نماز شروع کرنے سے قبل یہ ذہن میں مقرر کر لینا کہ اب میں فلاں فلاں سورة پڑھوں گا مکروہ نہیں خواہ امام ہو یا منفرد، پھر اگر پڑھتے وقت اس کے خلاف کرے تب بھی مضائقہ نہیں
0 comments:
Post a Comment