سب سے آخر میں جنت میں جانے والا شخص
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا : سب سے آخر میں جو شخص جنت میں جائے گا، وہ ایک ایسا شخص ہو گا
جو چلے گا، پھر اوندھا گرے گا اور جہنم کی آگ اس کو جلاتی جائے گی۔ جب دوزخ
سے پار ہو جائے گا، تو پیٹھ موڑ کر اس کو دیکھے گا اور کہے گا کہ بڑی برکت
والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ ( جہنم ) سے نجات دی۔ بیشک جتنا اللہ
تعالیٰ نے مجھے دیا ہے اتنا اگلوں پچھلوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ پھر اس
کو ایک درخت دکھلائی دے گا، وہ کہے گا کہ اے رب، مجھے اس درخت کے نزدیک کر
دے تاکہ میں اس کے سایہ میں رہوں اور اس
کا پانی پیوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! اگر میں نے تیرا
یہ سوال پورا کر دیا تو تو اور بھی سوال کرے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں اے میرے
رب ! اور عہد کرے گا کہ پھر میں کوئی سوال نہ کروں گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس
کا عذر قبول کر لے گا اس لئے کہ وہ ایسی نعمت کو دیکھے گا جس پر اس سے صبر
نہیں ہو سکتا ( یعنی انسان بے صبر ہے جب وہ تکلیف میں مبتلا ہو اور عیش کی
بات دیکھے تو بے اختیار اس کی خواہش کرتا ہے )۔ آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس
درخت کے نزدیک کر دے گا اور وہ اس کے سایہ میں رہے گا اور وہاں کا پانی پئے
گا۔ پھر اس کو ایک اور درخت دکھلائی دے گا، جو اس سے بھی اچھا ہو گا۔ وہ
کہے گا کہ اے پروردگار مجھے اس درخت کے نزدیک پہنچا دے تاکہ میں اس کے سائے
میں جاؤں اور اس کا پانی پیوں اور میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ
تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! کیا تو نے عہد نہیں کیا تھا کہ میں
پھر سوال نہ کروں گا؟ اور اگر میں تجھے اس درخت تک پہنچا دوں، تو پھر تو
اور سوال کرے گا۔ وہ اقرار کرے گا کہ نہیں پھر میں اور کچھ سوال نہ کروں
گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لئے کہ اس کو اس نعمت پر، جو وہ (
شخص ) دیکھتا ہے، صبر نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے نزدیک کر دے
گا، وہ اس کے سائے میں رہے گا اور وہاں کا پانی پئے گا۔ پھر اس کو ایک درخت
دکھائی دے گا جو جنت کے دروازے پر ہو گا اور وہ پہلے کے دونوں درختوں سے
بہتر ہو گا۔ وہ کہے گا کہ اے میرے رب ! مجھے اس درخت کے پاس پہنچا دے تاکہ
میں اس کے نیچے سایہ میں رہوں اور وہاں کا پانی پیوں، اب میں اور کچھ سوال
نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! کیا تو اقرار نہ کر
چکا تھا کہ اب میں اور کچھ سوال نہ کروں گا؟ وہ کہے گا کہ بیشک میں اقرار
کر چکا تھا، لیکن اب میرا یہ سوال پورا کر دے، پھر میں اور کچھ سوال نہ
کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لئے کہ وہ ان نعمتوں کو دیکھے
گا جن پر وہ صبر نہیں کر سکتا۔ آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے پاس کر
دے گا۔ جب وہ اس درخت کے پاس جائے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا اور
کہے گا کہ اے میرے رب ! مجھے جنت کے اندر پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا
کہ اے آدم کے بیٹے ! تیرے سوال کو کون سی چیز پورا کرے گی؟ ( یعنی تیری
خواہش کب موقوف ہو گی اور یہ بار بار سوال کرنا کیسے بند ہو گا ) بھلا تو
اس پر راضی ہے کہ میں تجھے ساری دنیا کے برابر دے کر اتنا ہی اور دوں؟ وہ
کہے گا کہ اے میرے رب ! تو سارے جہاں کا مالک ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟
پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہنسنے لگے اور لوگوں سے کہا کہ تم
مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنستا ہوں؟ لوگوں نے پوچھا کہ تم کیوں
ہنستے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ( اس حدیث
کو بیان کر کے ) اسی طرح ہنسے تھے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم ! آپ کیوں ہنستے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ رب العالمین کے
ہنسنے سے، میں بھی ہنستا ہوں جب وہ بندہ یہ کہے گا کہ تو سارے جہان کا مالک
ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ تو پرودرگار ہنس دے گا ( اس کی نادانی اور
بیوقوفی پر ) اور اللہ فرمائے گا کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا ( مذاق کرنا
میرے لائق نہیں وہ بندوں کے لائق ہے ) بلکہ میں جو چاہتا ہوں کر سکتا ہوں۔
اور اسے اس دنیا سے بھی دس گنا بڑی جنت دے دی جائے گی
(اس حدیث کو سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے)
مختصر صحیح مسلم حدیث نمبر 87
(اس حدیث کو سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے)
مختصر صحیح مسلم حدیث نمبر 87
0 comments:
Post a Comment