نور والا فلسفہ
میں اِک عرصہ تک اِس نُور والے
فلسفہ پہ مغز کھپائی کرتا رہا۔۔۔ بالآخر جب اللہ تعالٰی کی جانب سے توفیق
حاصل ہوئی تو سمجھ میں آیا کہ نُور کیا ہے اور کن کن معانی و استعارات میں
استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے بابا جی رحمتہ اللہ علیہ دُعا کرتے وقت ہمیشہ
اختصار و آہستگی اختیار فرماتے۔۔زیرِلب کچھ کہتے پڑھتے، وہ بھی لب مبارک
کی جنبش سے پتہ چلتا تھا۔۔۔ خوش قسمتی کہ چند ایک بار مجھے اِن کے دُعائیہ
الفاظ سماعت کرنے کا موقعہ نصیب ہوا۔۔۔
یہی مواقع تھے کہ میں لفظ نور کی معنوی بصیرت سے فیضیاب ہوا۔ آپ بابا جی
ہمیشہ لفظ نور کو ہر دعا و التجا کا نمایاں حصہ بناتے تھے۔ مثلا ’’ اے باری
تعالٰی ہمیں نورِ بصیرت عطا فرما، نُورِ یقین، نُورِایمان، نُورِعلم،
نُورِتوحید، نُورِبندگی اور نُورِ استقامت، نُورِ رِزق، نُورِ صبر، نُورِ
صحت، نُورِاولاد عطا فرما‘‘۔۔۔ بات کھلی کہ ہر مادے، ارادے استفادے کا اصل
ماخذ تو نُورِ الٰہی ہے۔ اگر محض یہ کہا جائے کہ ہمیں بے حساب رِزق عطا
کر۔۔۔ ۔رِزق تو آگیا اگر برکت نہ ہوئی تو کیا فائدہ؟ اولاد مل گئی لیکن اس
میں صالحیّت نہ آئی تو کس کام کی؟
(محمد یحیٰی خان۔ کاجل کوٹھا سے اقتباس)
(محمد یحیٰی خان۔ کاجل کوٹھا سے اقتباس)
0 comments:
Post a Comment