دل کی دنیا بدل گئی
ایک عورت اپنی کہانی بیان کرتی ہے کہ میرے شوہر بڑے جلالی طبیعت کے مالک تھے بات بات پر لڑنا‘ مارنا ان کی عادت تھی۔ گھروالے مجھے کہتے تھے جیسے تیسے کرکے نبھاؤں جب دوچار بچے ہوجائینگے تو خود بخود نرم پڑجائینگے خدا خدا کرکے بچے پیداہوئے خوش تھی کہ میاں صاحب بچوں سے پیار کرینگے مجھ سے نرمی سے بات کرینگے لیکن یوں لگتا کہ ان کے جسم میں گوشت پوست کا نہیں پتھر کا دل ہے۔ سنا تھا کہ باہر خوب ہنستے بولتے ہیں لیکن میں نے گھر میں انہیں کبھی ہنستے بولتے نہیں دیکھا نہ انہیں کبھی بچوں کو اٹھاتے پیار کرتے دیکھا بچے ابو ابو کرکے جب ان کے آنے پر ان کی طرف لپکتے تو ناگواری سے کہتے کیا مصیبت ہے ہٹو مجھے آرام کرنے دو۔ بچے ڈر کر دور ہوجاتے اور روتے روتے میرے پاس آتے کیا بتاؤں اس وقت جو مجھ پر گزرتی۔ میں جانتی ہوں یا میرا اللہ جانتا ہے۔ بچوں کو بہلاتی ان کو سمجھاتی کہ آپ کے ابوباہر کے کاموں کی زیادتی کی وجہ سے ایسے ہوگئے ہیں ورنہ آپ کے ابو تو بڑے اچھے ہیں‘ بڑے اچھے کہتے ہوئے میری ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے اورمیں بے اختیار رونے لگ جاتی‘ بچے تھے تو مجھ سے جیسے تیسے کھلونوں سے پیسوں سے بہل جاتے لیکن جب بالغ ہوگئے باہر کی ہوا انہیں لگ گئی دوستوں کے والدین کا اپنے بچوں سے سلوک دیکھ کر یہ اپنے باپ سے باغی ہوگئے اور جب ان کا والد انہیں کسی بات پر ڈانٹتا تو یہ کھڑے ہوکر مقابلے پر آجاتے میں درمیان میں آکر بڑی مشکل سے انہیں الگ کرتی‘ چلتے چلتے ایسے حالات بن گئے۔
بیٹے کہنے لگے ابا ایک دن تو ہمارے ہاتھوں قتل ہوجائے گا میں تڑپ کر رہ جاتی اور رو رو کر دعائیں کرتی اللہ نے میری دعائیں قبول کرلیں۔ ہمارے محلے کی مسجد میں کسی مولانا صاحب کا درس تھا۔ اللہ جانے یہ کیسے مسجد چلے گئے اور درس سن لیا حالانکہ یہ کبھی جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھتے۔ شاید کبھی عید کی نماز پڑھنے گئے ہوں‘ مجھے یاد نہیں۔ اسے اللہ کی مہربانی ہی کہیں گے بہرحال رات کو میرے شوہر بڑی دیر سے گھر آئے میں نے دروازہ کھولا دیکھا سرجھکا ہوا ہے‘ آنکھوں میں آنسو ہیں‘ ان دنوں کراچی کے حالات بھی خراب چل رہے تھے میں نے گھبرا کر پوچھا خیرتوہے‘ کہنے لگے ہاں خیر ہے‘ اندر چل پڑے۔ بچے کیسے ہیں؟ سو رہے ہیں؟ میں حیران پریشان انہیں دیکھ رہی تھی‘ بڑی مشکل سے میرے گلے سے آواز نکلی ہاں سب ٹھیک ہیں اور سورہے ہیں مجھے اندر کمرے میں لے کر اور میرے پاؤں پکڑ کر کہنے لگے مجھے معاف کردو میں نے آپ پر بڑے ظلم کیے ہیں اور آپ کو بڑا ستایا ہے‘ بچوں کو بڑا تنگ کیا ہے اب میں یہ سب کچھ چھوڑ دوں گا اور خود کو تبدیل کرلوں گا میں اتنی حیران اور ششدرہ تھی کہ میں نے ان کے ہاتھوں سے اپنے پاؤں بھی نہیں چھڑوائے جب ان کے آنسومیرے قدموں پر گرے تو میں چونک کر سنبھلی اور یہ کہتے ہوئے پاؤں سمیٹے کہ آپ ہی تو ہمارا سب کچھ ہیں ‘ مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں۔ بس ان بچوں کے ارمان ہیں کہ ان کو آپ کا پیار نہیں ملا‘ کہنے لگے میں بدنصیب ہوں لیکن آج کے بعد انہیں خوب پیار کروں گا انہیں مجھ سے کبھی شکایت نہ ہوگی اور پھر سوئے ہوئے بچوں کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے رہے ساری رات مجھ سے پیارو محبت کی باتیں کرتے رہے میں تو محسوس کررہی تھی کہ یہ جیتے جاگتے کوئی خواب دیکھ رہی ہوں‘ کوئی فلم‘ ڈرامہ ‘ دیکھ رہی ہوں‘ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ پتھرکیسے موم ہوگیا ہے وہ تو مجھے کئی دنوں بعد پتہ چلا کہ کوئی اللہ والے مولانا صاحب تشریف لائے تھے ان کا درس سنا تھا۔اس درس کی برکت سے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔
ایک عورت اپنی کہانی بیان کرتی ہے کہ میرے شوہر بڑے جلالی طبیعت کے مالک تھے بات بات پر لڑنا‘ مارنا ان کی عادت تھی۔ گھروالے مجھے کہتے تھے جیسے تیسے کرکے نبھاؤں جب دوچار بچے ہوجائینگے تو خود بخود نرم پڑجائینگے خدا خدا کرکے بچے پیداہوئے خوش تھی کہ میاں صاحب بچوں سے پیار کرینگے مجھ سے نرمی سے بات کرینگے لیکن یوں لگتا کہ ان کے جسم میں گوشت پوست کا نہیں پتھر کا دل ہے۔ سنا تھا کہ باہر خوب ہنستے بولتے ہیں لیکن میں نے گھر میں انہیں کبھی ہنستے بولتے نہیں دیکھا نہ انہیں کبھی بچوں کو اٹھاتے پیار کرتے دیکھا بچے ابو ابو کرکے جب ان کے آنے پر ان کی طرف لپکتے تو ناگواری سے کہتے کیا مصیبت ہے ہٹو مجھے آرام کرنے دو۔ بچے ڈر کر دور ہوجاتے اور روتے روتے میرے پاس آتے کیا بتاؤں اس وقت جو مجھ پر گزرتی۔ میں جانتی ہوں یا میرا اللہ جانتا ہے۔ بچوں کو بہلاتی ان کو سمجھاتی کہ آپ کے ابوباہر کے کاموں کی زیادتی کی وجہ سے ایسے ہوگئے ہیں ورنہ آپ کے ابو تو بڑے اچھے ہیں‘ بڑے اچھے کہتے ہوئے میری ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے اورمیں بے اختیار رونے لگ جاتی‘ بچے تھے تو مجھ سے جیسے تیسے کھلونوں سے پیسوں سے بہل جاتے لیکن جب بالغ ہوگئے باہر کی ہوا انہیں لگ گئی دوستوں کے والدین کا اپنے بچوں سے سلوک دیکھ کر یہ اپنے باپ سے باغی ہوگئے اور جب ان کا والد انہیں کسی بات پر ڈانٹتا تو یہ کھڑے ہوکر مقابلے پر آجاتے میں درمیان میں آکر بڑی مشکل سے انہیں الگ کرتی‘ چلتے چلتے ایسے حالات بن گئے۔
بیٹے کہنے لگے ابا ایک دن تو ہمارے ہاتھوں قتل ہوجائے گا میں تڑپ کر رہ جاتی اور رو رو کر دعائیں کرتی اللہ نے میری دعائیں قبول کرلیں۔ ہمارے محلے کی مسجد میں کسی مولانا صاحب کا درس تھا۔ اللہ جانے یہ کیسے مسجد چلے گئے اور درس سن لیا حالانکہ یہ کبھی جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھتے۔ شاید کبھی عید کی نماز پڑھنے گئے ہوں‘ مجھے یاد نہیں۔ اسے اللہ کی مہربانی ہی کہیں گے بہرحال رات کو میرے شوہر بڑی دیر سے گھر آئے میں نے دروازہ کھولا دیکھا سرجھکا ہوا ہے‘ آنکھوں میں آنسو ہیں‘ ان دنوں کراچی کے حالات بھی خراب چل رہے تھے میں نے گھبرا کر پوچھا خیرتوہے‘ کہنے لگے ہاں خیر ہے‘ اندر چل پڑے۔ بچے کیسے ہیں؟ سو رہے ہیں؟ میں حیران پریشان انہیں دیکھ رہی تھی‘ بڑی مشکل سے میرے گلے سے آواز نکلی ہاں سب ٹھیک ہیں اور سورہے ہیں مجھے اندر کمرے میں لے کر اور میرے پاؤں پکڑ کر کہنے لگے مجھے معاف کردو میں نے آپ پر بڑے ظلم کیے ہیں اور آپ کو بڑا ستایا ہے‘ بچوں کو بڑا تنگ کیا ہے اب میں یہ سب کچھ چھوڑ دوں گا اور خود کو تبدیل کرلوں گا میں اتنی حیران اور ششدرہ تھی کہ میں نے ان کے ہاتھوں سے اپنے پاؤں بھی نہیں چھڑوائے جب ان کے آنسومیرے قدموں پر گرے تو میں چونک کر سنبھلی اور یہ کہتے ہوئے پاؤں سمیٹے کہ آپ ہی تو ہمارا سب کچھ ہیں ‘ مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں۔ بس ان بچوں کے ارمان ہیں کہ ان کو آپ کا پیار نہیں ملا‘ کہنے لگے میں بدنصیب ہوں لیکن آج کے بعد انہیں خوب پیار کروں گا انہیں مجھ سے کبھی شکایت نہ ہوگی اور پھر سوئے ہوئے بچوں کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے رہے ساری رات مجھ سے پیارو محبت کی باتیں کرتے رہے میں تو محسوس کررہی تھی کہ یہ جیتے جاگتے کوئی خواب دیکھ رہی ہوں‘ کوئی فلم‘ ڈرامہ ‘ دیکھ رہی ہوں‘ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ پتھرکیسے موم ہوگیا ہے وہ تو مجھے کئی دنوں بعد پتہ چلا کہ کوئی اللہ والے مولانا صاحب تشریف لائے تھے ان کا درس سنا تھا۔اس درس کی برکت سے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔
0 comments:
Post a Comment