Saturday, 16 February 2013

مسلمان کو کسی غلطی پر برا بھلا کہنا شیطان کی مدد کرنے کے مترادف ہے

اہل شام میں سے ایک بڑا بارعب قوی آدمی تھا اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا کرتا تھا‘ کچھ عرصہ تک وہ نہ آیا تو فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے اس کا حال پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ امیرالمومنین اس کا حال نہ پوچھئے وہ تو شراب میں مست رہنے لگا۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے منشی کو بلایا اور کہا یہ خط لکھو: ”منجانب عمر بن خطاب بنام فلاں بن فلاں۔ سلام علیک اس کے بعد میں تمہارے لیے اس اللہ کی حمد پیش کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ گناہوں کو معاف کرنے والا توبہ قبول کرنے والا‘ سخت عذاب والا‘ بڑی قدرت والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“
پھر حاضرین مجلس سے کہا کہ سب مل کر اس کیلئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو پھیردے اور اس کی توبہ قبول فرمائے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جس قاصد کے ہاتھ یہ خط بھیجا تھا اس کو ہدایت کردی تھی کہ یہ خط اس کو اس وقت تک نہ دے جب تک وہ نشہ سے ہوش میں نہ آئے اور کسی دوسرے کے حوالے نہ کرے۔
جب اس کے پاس حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ خط پہنچا اور اس نے پڑھا تو بار بار ان کلمات کو پڑھتا اور غور کرتا رہا کہ اس میں مجھے سزا سے ڈرایا بھی گیا اور معاف کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے پھر رونے لگا اور شراب نوشی سے باز آگیا اور ایسی توبہ کی کہ پھر اس کے پاس نہ گیا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جب اس اثر کی خبر ملی تو لوگوں سے فرمایا کہ ایسے معاملات میں تم سب کو ایسا ہی کرنا چاہیے کہ جب کوئی بھائی کسی لغزش میں مبتلا ہوجائے تو اس کو درستی پر لانے کی فکر کرو اور اس کو اللہ کی رحمت کا بھروسہ دلاو اور اللہ سے اس کیلئے دعا کرو کہ وہ توبہ کرلے اور تم اس کے مقابلے میں شیطان کے مددگار نہ بنو یعنی اس کو برا بھلا کہہ کر یا غصہ دلا کر دین سے دور کر دوگے تو یہ شیطان کی مدد ہوگی۔
(معارف القرآن)
اس واقعے کو ابن کثیر نے ابن ابی حاتم کی سند سے نقل کیا ہے

0 comments:

Post a Comment