صحابہ کرام کی شان
1932 میں شاہ عراق ملک فیصل اول کو خواب میں حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ ،
جلیل القدر صحابی نے فرمایا حضرت جابر بن عبداللہ اور مجھے موجودہ مزارات
سے منتقل کرکے دریائے دجلہ سے کچھ فاصلے پر دفن کردو کیونکہ میرے مزار میں
پانی اور حضرت جابر کے مزار میں نمی ہے۔
شاہ فیصل نے یہ خواب مسلسل دیکھا ،لیکن بوجہ مصروفیت امورِ مملکت کوئی خاص
توجہ نہ دی ۔ تیسری شب حضرت موصوف نے مفتی اعظم عراق کو ہدایت فرمائی، ہم
شاہ عراق سے دو مرتبہ کہہ چکے ہیں ہمارے مزارات یہاں سے منتقل کردو لیکن
شاہ نے توجہ نہ دی، تم شاہ کو تاکید کردو وہ منتقلی مزارات کا انتظام کردے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہجرت سے پندرہ سال پہلے مدنیہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق قبیلہ خزرج کے ایک غریب خاندان سے تھا۔ آپ کم عمری میں اسلام لائے اور بے شمار غزوات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ دیا۔ والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام نصیبہ بنت عقبہ بنت عدی تھا جو ان کے والد کے خاندان ہی سے تھیں۔ آپ کے والد حضرت عبداللہ انصاری غزوہ احد میں شہید ہوئے۔ ان کی نسل کو بنو حرام کہا جاتا ہے جو آج بھی مسجد قبلتین کے قریب رہائش رکھتے ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سات بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ بعض روایات کے مطابق ایک دفعہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اے جابر تم ایک لمبی زندگی پاؤ گے اگرچہ اندھے ہو جاؤ گے مگر تمہاری ملاقات میری اولاد میں سے ایک شخص سے ہوگی وہ میرا ہم نام ہوگا.
انہوں نے چورانوے سال کی عمر پائی اور 78ھ میں وفات پائی۔ روایات کے مطابق انہیں حجاج بن یوسف نے زہر دلوایا تھا۔ انہیں بغداد کے قریب مدائن میں دریائے دجلہ کے قریب دفن کیا گیا۔
بہر حال صبح کو مفتی اعظم نوری السعید وزیراعظم عراق کے پاس تشریف گئے اور خواب بیان کیا۔ وزیراعظم مرحوم اور مفتی اعظم عراق دونوں شاہ کی خدمت میں باریاب ہوئے اور درخواست بیان کی ۔ شاہ نے بھی اس خواب کی تائید کی۔ باہمی مشورہ اور غور و فکر کے بعد طے پایا کہ مفتی اعظم مزارات کی منتقلی کا فتوی دیں اور فتوے کے ساتھ شاہی فرمان منسلک کرکے اخبارات میں اشاعت کے لیے وزیراعظم کو دے دیں۔
چناچہ اس پر فورًا عمل کیا ۔اعلان تھا دس ذوالحجہ کے بعد نماز ظہر دونوں اصحاب رسول رضی اللہ عنھم کے مزارات کھول کر دونوں حضرات کو کسی مناسب جگہ دفن کیا جائے گا۔ اس اعلان کی اشاعت کے بعد تمام عالم اسلامی میں یہ خبر نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھی گئی۔ چونکہ حج کا زمانہ قریب تھا دنیا کے مسلمان حرمین الشریفین میں جمع تھے۔ سب نے بذریعہ تار شاہ عراق سے درخواست کی کہ مزارات ، حج کے بعد کسی قریبی تاریخ میں منتقل کیے جائیں تاکہ ہم بھی شرکت کی سعادت حاصل کرسکیں۔ اسی طرح اطرافِ عالم ہندوستان ، ترکی ، مصر ، افریقہ ، ایران ، شام اور بلغاریہ وغیرہ سے تاروں کی یلغار شروع ہوگئی اور تاریخ میں توسیع کی درخواست کی گئی۔
مسلمانانِ عالم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دوسرا شاہی فرمان جاری کیا گیا کہ اب یہ مبارک کام حج کے دس یوم کے بعد کیا جائے گا۔ بغداد سےتقریبا 40 میل دور ایک تاریخی مقام مدائن ہے جس کو اب سلمان پاک کہتے ہیں۔ یہاں مشہور صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا مزار بھی ہے۔اطرافِ عالم سے مسلمانان اور غیرمسلم کثیر تعداد میں بغداد پہنچ گئے۔ تمام دنیا کے اخباری نمائندے ، فوٹوگرافر ، سفیر اور مشہور سیاح، مورخ، شاہ عراق اور وزیراعظم ، مفتی اعظم ، امراء ، صلحاء اور عمائدینِ عراق دوشنبہ کو دوپہر کے وقت یہاں جمع ہوچکے تھے۔
پہلے حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ کے جسدِ مبارک کو کرین کے ذریعے زمین سے اس طرح اٹھایا گیا کہ کرین پر لگے اسٹریچر پر جسدِ مبارک خودبخود آگیا۔ اس کے بعد کرین سے اسٹریچر الگ کرکے شاہ فیصل ، مفتی اعظم ، وزراء ترکی ، ولی عہد مصر شہزادہ فاروق نے کاندھوں پر اسٹریچر رکھ کر تابوت تک لائے جو شیشہ کا بنا ہوا پہلے سے تیار تھا۔ تابوت میں جسد مبارک رکھ دیا گیا۔ اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ کے جسدِ مبارک کو بھی مزار سے نکال کر باالاحترام بلوری تابوت میں رکھ دیا گیا۔
دونوں حضرات کے جسم بالکل تروتازہ تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا یہ حضرات ابھی زندہ ہیں۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھیں جن سے نوری شعاعیں نکل کر دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کررہی تھیں۔ کفن بھی بالکل تازہ تھے۔
یہ کرشمہ قدرت دیکھ کر بڑے بڑے ڈاکٹر ، سائنس دان ، انگشت بدنداں تھے۔ بین الاقوامی شہرت کا مالک ایک جرمن ماہر چشم اس کاروائی میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا ، وہ اس قدر متاثر ہوا کہ فورا مفتی اعظم عراق کے پاس آیا اور ہاتھ پکڑ کر کہا، اسلام کی حقانیت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔ میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتا ہوں آپ مجھے تلقین کریں۔
لاکھوں انسانوں کے سامنے یہ ڈاکٹر مسلمان ہوگیا۔ اس کے بعد ہزاروں نصرانیوں ، یہودیوں نے جوق در جوق بغداد آکر مع اپنے خاندانی افراد اسلام قبول کیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہجرت سے پندرہ سال پہلے مدنیہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق قبیلہ خزرج کے ایک غریب خاندان سے تھا۔ آپ کم عمری میں اسلام لائے اور بے شمار غزوات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ دیا۔ والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام نصیبہ بنت عقبہ بنت عدی تھا جو ان کے والد کے خاندان ہی سے تھیں۔ آپ کے والد حضرت عبداللہ انصاری غزوہ احد میں شہید ہوئے۔ ان کی نسل کو بنو حرام کہا جاتا ہے جو آج بھی مسجد قبلتین کے قریب رہائش رکھتے ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سات بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ بعض روایات کے مطابق ایک دفعہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اے جابر تم ایک لمبی زندگی پاؤ گے اگرچہ اندھے ہو جاؤ گے مگر تمہاری ملاقات میری اولاد میں سے ایک شخص سے ہوگی وہ میرا ہم نام ہوگا.
انہوں نے چورانوے سال کی عمر پائی اور 78ھ میں وفات پائی۔ روایات کے مطابق انہیں حجاج بن یوسف نے زہر دلوایا تھا۔ انہیں بغداد کے قریب مدائن میں دریائے دجلہ کے قریب دفن کیا گیا۔
بہر حال صبح کو مفتی اعظم نوری السعید وزیراعظم عراق کے پاس تشریف گئے اور خواب بیان کیا۔ وزیراعظم مرحوم اور مفتی اعظم عراق دونوں شاہ کی خدمت میں باریاب ہوئے اور درخواست بیان کی ۔ شاہ نے بھی اس خواب کی تائید کی۔ باہمی مشورہ اور غور و فکر کے بعد طے پایا کہ مفتی اعظم مزارات کی منتقلی کا فتوی دیں اور فتوے کے ساتھ شاہی فرمان منسلک کرکے اخبارات میں اشاعت کے لیے وزیراعظم کو دے دیں۔
چناچہ اس پر فورًا عمل کیا ۔اعلان تھا دس ذوالحجہ کے بعد نماز ظہر دونوں اصحاب رسول رضی اللہ عنھم کے مزارات کھول کر دونوں حضرات کو کسی مناسب جگہ دفن کیا جائے گا۔ اس اعلان کی اشاعت کے بعد تمام عالم اسلامی میں یہ خبر نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھی گئی۔ چونکہ حج کا زمانہ قریب تھا دنیا کے مسلمان حرمین الشریفین میں جمع تھے۔ سب نے بذریعہ تار شاہ عراق سے درخواست کی کہ مزارات ، حج کے بعد کسی قریبی تاریخ میں منتقل کیے جائیں تاکہ ہم بھی شرکت کی سعادت حاصل کرسکیں۔ اسی طرح اطرافِ عالم ہندوستان ، ترکی ، مصر ، افریقہ ، ایران ، شام اور بلغاریہ وغیرہ سے تاروں کی یلغار شروع ہوگئی اور تاریخ میں توسیع کی درخواست کی گئی۔
مسلمانانِ عالم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دوسرا شاہی فرمان جاری کیا گیا کہ اب یہ مبارک کام حج کے دس یوم کے بعد کیا جائے گا۔ بغداد سےتقریبا 40 میل دور ایک تاریخی مقام مدائن ہے جس کو اب سلمان پاک کہتے ہیں۔ یہاں مشہور صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا مزار بھی ہے۔اطرافِ عالم سے مسلمانان اور غیرمسلم کثیر تعداد میں بغداد پہنچ گئے۔ تمام دنیا کے اخباری نمائندے ، فوٹوگرافر ، سفیر اور مشہور سیاح، مورخ، شاہ عراق اور وزیراعظم ، مفتی اعظم ، امراء ، صلحاء اور عمائدینِ عراق دوشنبہ کو دوپہر کے وقت یہاں جمع ہوچکے تھے۔
پہلے حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ کے جسدِ مبارک کو کرین کے ذریعے زمین سے اس طرح اٹھایا گیا کہ کرین پر لگے اسٹریچر پر جسدِ مبارک خودبخود آگیا۔ اس کے بعد کرین سے اسٹریچر الگ کرکے شاہ فیصل ، مفتی اعظم ، وزراء ترکی ، ولی عہد مصر شہزادہ فاروق نے کاندھوں پر اسٹریچر رکھ کر تابوت تک لائے جو شیشہ کا بنا ہوا پہلے سے تیار تھا۔ تابوت میں جسد مبارک رکھ دیا گیا۔ اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ کے جسدِ مبارک کو بھی مزار سے نکال کر باالاحترام بلوری تابوت میں رکھ دیا گیا۔
دونوں حضرات کے جسم بالکل تروتازہ تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا یہ حضرات ابھی زندہ ہیں۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھیں جن سے نوری شعاعیں نکل کر دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کررہی تھیں۔ کفن بھی بالکل تازہ تھے۔
یہ کرشمہ قدرت دیکھ کر بڑے بڑے ڈاکٹر ، سائنس دان ، انگشت بدنداں تھے۔ بین الاقوامی شہرت کا مالک ایک جرمن ماہر چشم اس کاروائی میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا ، وہ اس قدر متاثر ہوا کہ فورا مفتی اعظم عراق کے پاس آیا اور ہاتھ پکڑ کر کہا، اسلام کی حقانیت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔ میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتا ہوں آپ مجھے تلقین کریں۔
لاکھوں انسانوں کے سامنے یہ ڈاکٹر مسلمان ہوگیا۔ اس کے بعد ہزاروں نصرانیوں ، یہودیوں نے جوق در جوق بغداد آکر مع اپنے خاندانی افراد اسلام قبول کیا۔
0 comments:
Post a Comment