خدا کا مسکن انسان کا دل ہے
ایک دفعہ ہم نے اللہ سبحانہ
وتعالٰی کو پکارا۔ تو میرے رب نے کمال مہربانی سے میرے ہاں آنے کا وعدہ کر
لیا۔ تو ہم اس کی تیاریوں میں لگ گئے۔ اس بات کی اتنی خوشی تھی کہ زمین پر
پاؤں نہیں ٹکتے تھے۔ خیال آیا کہ سب سے پہلے گھر کی تزئین و آرائش کی
جائے کہ رب العزت کی آمد آمد ہے۔۔۔ لیکن ایک صدا آئی۔۔۔ اللہ اکبر ، اللہ
اکبر۔۔۔ تو خیال آیا کہ میرا رب تو بہت بڑا اور عظیم ہے وہ تو رب السماوات
والارض ہے۔ وہ بھلا میرے اس گھر میں کیسے آ
سکتا ہے۔ میرا یہ گھر تو اس قابل نہیں کہ خالق ارض و سماوات کا مسکن بن
سکے۔۔ ۔ پھر پوری دنیا پر نظر دوڑائی تو کسی بھی جگہ کو اس جل شانہ کے مسکن
کے قابل نہ پایا۔ کہ یہ زمین و آسمان تو اس کی پیش کردہ ایک امانت کا بوجھ
نہیں اٹھا سکے تھے۔ تو رب ذوالجلال کے جلووں کی تاب کہاں لا سکتے ہیں۔۔۔
تو پھر اس کو کہاں بلایا جائے اور کہاں اس سے ملاقات کی جائے؟؟؟۔ اچانک
خیال آیا کہ وہ سبحانہ وتعالٰی تو اپنے بندے کے دل میں جلوہ فرما ہوتا
ہے۔۔۔ اور ہمارے قلب کو ہی اس نے وسعت و گہرائی عطا فرما کر اپنا مسکن بننے
کی عزت بخشی ہے۔۔۔ پھر ہمیں اس مصرعے کی سمجھ آئی کہ
-
دل دریا سمندروں ڈونگھے ، کون دلاں دیاں جانے ہو۔۔۔
یہ بات جان کر تو ہم اور بھی خوش ہو گئے کہ چلو جمال و جلال خداوندی کو اپنے دل کی زینت بناتے ہیں اور اسی قلب کو اس وحدہ لا شریک کا مسکن بنا لیتے ہیں اور پھر جب چاہیں گے اس کے جمال سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر لیا کریں گے۔ کہ بقول شاعر۔۔۔
-
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی۔
-
اسی خوشی میں ہم نے اپنے دل کی طرف توجہ کی تو دل پرنظر پڑتے ہی ہماری چیخ نکل گئی۔۔۔ یہاں تو ماحول ہی دوسرا تھا۔۔۔ ہر جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔۔۔ کہیں پر حسد کی آگ بھڑک رہی تھی اور کہیں پر غیبت کا خون بکھرا پڑا تھا۔۔۔ ایک طرف تکبر کی ڈھیری سے سڑانڈ اٹھ رہی تھی تو دوسری طرف جھوٹ کی بو سے سارا ماحول تعفن کا شکار تھا۔ غصے اور نفس کی شہوتوں نے وہ زخم لگائے ہوئے تھے کہ جن سے پیپ بہہ رہی تھی۔ بد خلقی کے خونی پنجے قلب کی گہرائی تک اتر چکے تھے۔ ریاء اور نمود ونمائش کے بتوں نے اپنی جاہ و حشمت کے بڑے بڑے بینرز لگار رکھے تھے۔ گناہوں کی کالک نے پورے قلب کو اندھیر نگری بنا دیا تھا۔اور محبت کا خانہ تو دنیا کی محبت سے ایسا بھرا ہوا تھا کہ وہ اس سے باہر چھلک رہی تھی۔ اب اس میں کسی اور کی محبت کے لئے جگہ ہی نہ بچی تھی۔ ہم نے فوراً اپنی نظر دل سے ہٹا لی کہ مزید کچھ دیکھنے کا یارا نہ رہا تھا۔۔۔ اب ہمیں سمجھ آ رہا تھا کہ اللہ ہمارے ہاں کیوں نہیں آتا۔۔۔ اس دنیا میں اس کا مسکن تو صرف ہمارا قلب تھا۔ جس کو ہم نے پوری طرح بگاڑ کے رکھ دیا تھا ۔ اورقلب کی بیماریوں نے اس کو اتنا کمزور اور کریہہ شکل کر دیا تھا کہ یہاں ہماری اپنی نظر جانے کو تیار نہ تھی تو وہ ملک القدوس کیسے اس ناپاک جگہ پر جلوہ فرما ہوتا۔۔۔
۔
اب ہم قلب کی ان بیماریوں سے چھٹکارا پانے کی ترکیبیں کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بیماریاں ایسے ناسور ہیں کہ بغیر میجر سرجری کے ان کو نکال کر پھینکنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اور اس کے لئے سخت مجاہدہ چاہیئے۔ اگر آپ کا قلب ان بیماریوں سے محفوظ ہے تو آپ اس دنیا کے خوش قسمت ترین انسان ہیں کہ کسی بھی وقت رب کائنات آپ کا مہمان بن سکتا ہے۔۔۔
-
دل دریا سمندروں ڈونگھے ، کون دلاں دیاں جانے ہو۔۔۔
یہ بات جان کر تو ہم اور بھی خوش ہو گئے کہ چلو جمال و جلال خداوندی کو اپنے دل کی زینت بناتے ہیں اور اسی قلب کو اس وحدہ لا شریک کا مسکن بنا لیتے ہیں اور پھر جب چاہیں گے اس کے جمال سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر لیا کریں گے۔ کہ بقول شاعر۔۔۔
-
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی۔
-
اسی خوشی میں ہم نے اپنے دل کی طرف توجہ کی تو دل پرنظر پڑتے ہی ہماری چیخ نکل گئی۔۔۔ یہاں تو ماحول ہی دوسرا تھا۔۔۔ ہر جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔۔۔ کہیں پر حسد کی آگ بھڑک رہی تھی اور کہیں پر غیبت کا خون بکھرا پڑا تھا۔۔۔ ایک طرف تکبر کی ڈھیری سے سڑانڈ اٹھ رہی تھی تو دوسری طرف جھوٹ کی بو سے سارا ماحول تعفن کا شکار تھا۔ غصے اور نفس کی شہوتوں نے وہ زخم لگائے ہوئے تھے کہ جن سے پیپ بہہ رہی تھی۔ بد خلقی کے خونی پنجے قلب کی گہرائی تک اتر چکے تھے۔ ریاء اور نمود ونمائش کے بتوں نے اپنی جاہ و حشمت کے بڑے بڑے بینرز لگار رکھے تھے۔ گناہوں کی کالک نے پورے قلب کو اندھیر نگری بنا دیا تھا۔اور محبت کا خانہ تو دنیا کی محبت سے ایسا بھرا ہوا تھا کہ وہ اس سے باہر چھلک رہی تھی۔ اب اس میں کسی اور کی محبت کے لئے جگہ ہی نہ بچی تھی۔ ہم نے فوراً اپنی نظر دل سے ہٹا لی کہ مزید کچھ دیکھنے کا یارا نہ رہا تھا۔۔۔ اب ہمیں سمجھ آ رہا تھا کہ اللہ ہمارے ہاں کیوں نہیں آتا۔۔۔ اس دنیا میں اس کا مسکن تو صرف ہمارا قلب تھا۔ جس کو ہم نے پوری طرح بگاڑ کے رکھ دیا تھا ۔ اورقلب کی بیماریوں نے اس کو اتنا کمزور اور کریہہ شکل کر دیا تھا کہ یہاں ہماری اپنی نظر جانے کو تیار نہ تھی تو وہ ملک القدوس کیسے اس ناپاک جگہ پر جلوہ فرما ہوتا۔۔۔
۔
اب ہم قلب کی ان بیماریوں سے چھٹکارا پانے کی ترکیبیں کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بیماریاں ایسے ناسور ہیں کہ بغیر میجر سرجری کے ان کو نکال کر پھینکنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اور اس کے لئے سخت مجاہدہ چاہیئے۔ اگر آپ کا قلب ان بیماریوں سے محفوظ ہے تو آپ اس دنیا کے خوش قسمت ترین انسان ہیں کہ کسی بھی وقت رب کائنات آپ کا مہمان بن سکتا ہے۔۔۔
0 comments:
Post a Comment