Sunday, 31 March 2013

ایک بوڑھی ماں اپنے گھر کے گارڈن میں اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھی تھی- اس کی بیٹی پڑھائی میں شروع سے ہی بہت اچھی تھی اوراسی شوق کو جاری رکھتے ہوئے اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی- گارڈن کے قریب گھر کی دیوار پر اچانک ایک کوا آ کر بیٹھا- اس بوڑھی ماں نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ بیٹی نے جواب دیا کہ یہ کوا ہے- تھوڑی دیر کے بعد اس کی ماں نے دوبارہ اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ بیٹی نے جواب دیا کہ یہ کوا ہے-
کچھ منٹ ہی گزرے تھے کہ تیسری دفعہ اس عورت نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس کی بیٹی نے کہا کہ امی میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آپ کو بتایا ہے کہ یہ کوا ہے- کچھ دیراور گزری تھی کہ اس بوڑھی ماں نے چوتھی بار اپنی بیٹی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس دفعہ اس کی بیٹی کے لحجے میں اسے کچھ جھنجلاہٹ محسوس ہوئی اور اس نے اپنی ماں کو جھڑکتے ہوئے کہا کہ یہ کوا یہ کوا ہے- ایک دفعہ پھر سے اس کی ماں نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس دفعہ اس کی بیٹی نے بہت ہی غصے سے اپنی ماں کو بولا کہ امی آپ ہمیشہ ایک سوال کو کئی بار دہراتی ہیں- حالانکہ میں نے آپ کو کئی دفعہ بتایا تھا کہ یہ کوا ہے- آُپ کے سمجھ میں میری بات کیوں نہیں آ رہی ہے؟
اس لڑکی کی ماں اٹھی اور اپنے کمرے میں چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد وہ ہاتھ میں ایک پرانی سی ڈائری پکڑ کے واپس آئیں- اس بوڑھی ماں نے اس ڈائری کا ایک صفحہ کھولا اور اپنی بیٹی کو کہا کہ پڑھو اس پر کیا لکھا ہے۔ اس کی بیٹی نے جو الفاظ پڑھے وہ الفاظ اس ڈائری میں کچھ یوں لکھے تھے:
“آج میری چھوٹی سی بیٹی میرے ساتھ گارڈن میں بیٹھی تھی، جب وہاں ایک کوا آ کر بیٹھ گیا- میری بیٹی نے مجھ سے پچیس دفعہ پوچھا کہ یہ کیا ہے اور میں نے اسے پچیس دفعہ بتایا تھا کہ وہ کوا ہے- اس کے بار بار پوچھنے پر بھی مجھے ذرا بھی جھنجھلاہٹ محسوس نہیں ہوئی تھی- بلکہ مجھے اپنی معصوم بیٹی کے لئے بہت پیار اور محبت محسوس ہو رہی تھی-”
اس کی بوڑھی ماں نے اپنی بیٹی کو ایک ماں اور ایک بیٹی کے روئیے کا فرق ظاہر کیا- انھوں نے بتایا کہ جب تم چھوٹی تھیں تو تم نے مجھ سے ایک سوال پچیس دفعہ پوچھا اور میں تمہیں  جواب دینے میں بالکل بھی تنگ نہیں آئی تھی اور پچیس دفعہ بہت پیار کے ساتھ میں نے تمہیں تمہاری بات کا جواب دیا تھا- اور آج جب میں نے تم سے یہی سوال صرف پانچ بار پوچھا تو تم جھنجھلا گئیں، ناراض ہوئیں اور مجھ پر غصہ کرنے لگیں-
اس کی بیٹی کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا- یہ صرف اس ایک لڑکی کی کہانی نہیں بلکہ آج کل سب ہی لڑکے لڑکیوں کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے غصے پر قابو میں نہیں کر پاتے اور ماں باپ کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تنگ آجاتے ہیں اور ان سے بد تمیزی سے پیش آتے ہیں- وہ بھول جاتے ہیں کہ یہی وہ والدین ہیں جنھوں نے انھیں پالا، ان کی ہر خواہش پوری کی، انھیں اس قابل بنایا کہ آج وہ دنیا میں بڑے فخر کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں- ہم سب کو چاہئے کہ اپنے والدین کا احترام کریں اور ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ نہ ہوں بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ اور پیار کے ساتھ ان سے پیش آئیں- کیونکہ اگر آج وہ ہماری اچھی تربیت نہ کرتے تو ہم بھی اس معاشرے میں سر اٹھا کر نہ جی رہے ہوتے

0 comments:

Post a Comment