Friday, 1 March 2013


ولادت و ابتدائی زندگی

علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء (بمطابق 3 ذیقعد 1294ھ) کو برطانوی ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ء کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتی ہے۔
اقبال کے آبا‌ ؤ اجداد قبول اسلام کے بعد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوئے۔ شیخ نُور محمد کشمیر کے سپر و برہمنوں کی نسل سے تھے ۔ غازی اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں ان کے ایک جدّ نے اسلام قبول کیا ۔ ہر پشت میں ایک نہ ایک ایسا ضُرور ہوا جس نے فقط دل سے راہ رکھی ۔ یہ بھی انہی صاحب دلوں میں سے تھے ۔ بزرگوں نے کشمیر چھوڑا تو سیالکوٹ میں آبسے ۔ ان کے والد شیخ محمد رفیق نے محلہ کھٹیکاں میں ایک مکان آباد کیا ۔کشمیری لوئیوں اور دُھسّوں کی فروخت کا کاروبار شروع کیا ۔ لگتا ہے کہ یہ اور ان کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد یہیں پیدا ہوئے ، پلے بڑھے اور گھر والے ہوئے ۔ بعد میں شیخ محمد رفیق بازار چوڑیگراں میں اُٹھ آئے جو اب اقبال بازار کہلاتا ہے ۔ ایک چھوٹا سا مکان لے کر اس میں رہنے لگے ، مرتے دم تک یہیں رہے ۔ ان کی وفات کے بعد شیخ نُور محمد نے اس سے ملحق ایک دو منزلہ مکان اور دو دکانیں خرید کر مکانیت کو بڑھا لیا۔
شیخ نُور محمد دیندار آدمی تھے ۔ بیٹے کے لیے دینی تعلیم کو کافی سمجھتے تھے ۔ سیالکوٹ کے اکثر مقامی علماء کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے ۔ اقبال بسم اﷲ کی عمر کو پہنچے تو انھیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے ۔ مولانا ابوعبداﷲ غلام حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے ۔شیخ نُور محمد کا وہاں آنا جانا تھا ۔ یہاں سے اقبال کی تعلیم کا آغاز ہوا ۔ حسبِ دستور قرآن شریف سے ابتداء ہوئی ۔ تقریباً سال بھر تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ ایک شہر کے نامور عالم مولانا سید میر حسن ادھر آ نکلے ۔ ایک بچّے کو بیٹھے دیکھا کہ صورت سے عظمت اور سعادت کی پہلی جوت چمکتی نظر آرہی تھی ۔ پوچھا کہ کس کا بچّہ ہے۔ معلوم ہوا تو وہاں سے اُٹھ کر شیخ نور محمد کی طرف چل پڑے ۔دونوں آپس میں قریبی واقف تھے ۔ مولانا نے زور دے کر سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرسے تک محدود نہ رکھو ۔ اس کے لیے جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ اقبال کو ان کی تربیت میں دے دیا جائے ۔ کچھ دن تک تو شیخ نور محمد کو پس و پیش رہا ، مگر جب دوسری طرف سے اصرار بڑھتا چلا گیا تو اقبال کو میر حسن کے سپرد کردیا ۔ ان کا مکتب شیخ نور محمد کے گھر کے قریب ہی کوچہ میرحسام الدین میں تھا۔ یہاں اقبال نے اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا ۔ تین سال گزر گئے ۔ اس دوران میں سید میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھانا شروع کردیا ۔ اقبال بھی وہیں داخل ہوگئے مگر پرانے معمولات اپنی جگہ رہے ۔ اسکول سے آتے تو استاد کی خدمت میں پہنچ جاتے ۔ میر حسن ان عظیم استادوں کی یادگار تھے جن کے لیے زندگی کا بس ایک مقصد ہوا کرتا تھا : پڑھنا اور پڑھانا ۔ لیکن یہ پڑھنا اور پڑھانا نری کتاب خوانی کا نام نہیں ۔ اچھے زمانے میں استاد مرشد ہوا کرتا تھا ۔ میرحسن بھی یہی کیا کرتے تھے ۔ تمام اسلامی علوم سے آگاہ تھے ، جدید علوم پر بھی اچھی نظر تھی ۔ اس کے علاوہ ادبیات ، معقولات ، لسانیات اور ریاضیات میں بھی مہارت رکھتے تھے ۔ شاگردوں کو پڑھاتے وقت ادبی رنگ اختیار کرتے تھے تاکہ علم فقط حافظے میں بند کر نہ رہ جائے بلکہ طرزِ احساس بن جائے ۔ عربی ، فارسی اردو اور پنجابی کے ہزاروں شعر از بر تھے ۔ایک شعر کو کھولنا ہوتا تو بیسیوں مترادف اشعار سنا ڈالتے۔
مولانا کی تدریسی مصروفیات بہت زیادہ تھیں مگر مطالعے کا معمول قضا نہیں کرتے تھے ۔ قرآن کے حافظ بھی تھے اور عاشق بھی۔شاگردوں میں شاہ صاحب کہلاتے تھے ۔ انسانی تعلق کا بہت پاس تھا ۔ حد درجہ شفیق ، سادہ ، قانع ، متین ، منکسر المزاج اور خوش طبع بزرگ تھے ۔ روزانہ کا معمول تھ کہ فجر کی نماز پڑھ کر قبرستان جاتے ، عزیزوں اور دوستوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ۔ فارغ ہوتے تو شاگردوں کو منتظر پاتے ۔ واپسی کا راستہ سبق سننے اور دینے میں کَٹ جاتا ۔ یہ سلسلہ گھر پہنچ کر بھی جاری رہتا ، یہاں تک کہ اسکول کو چل پڑتے ۔ شاگرد ساتھ لگے رہتے ۔ دن بھر اسکول میں پڑھاتے ۔ شام کو شاگردوں کولیے ہوئے گھر آتے ، پھر رات تک درس چلتا رہتا ۔ اقبال کو بہت عزیز رکھتے تھے ۔ خود وہ بھی استاد پر فدا تھے ۔ اقبال کی شخصیت کی مجموعی تشکیل میں جو عناصر بنیادی طور پر کارفرما نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر شاہ صاحب کی صحبت اور تعلیم کا کرشمہ ہیں ۔ سید میر حسن سر سید کے بڑے قائل تھے ۔ علی گڑھ تحریک کو مسلمانوں کے لیے مفید سمجھتے تھے ۔
ان کے زیر اثر اقبال کے دل میں بھی سرسید کی محبت پیدا ہوگئی جو بعض اختلافات کے باوجود آخر دم تک قائم رہی ۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ تو خیر اقبال کے گھر کی چیز تھی مگر میر حسن کی تربیت نے اس جذبے کو ایک علمی اور عملی سمت دی ۔ اقبال سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپنے ہم عمر بچوں سے کہیں آگے تھے ۔ بچپن ہی سے ان کے اندر وہ انہماک اور استغراق موجود تھا جو بڑے لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ مگر وہ کتاب کے کیڑے نہیں تھے ۔ کتاب کی لت پڑ جائے تو آدمی محض ایک دماغی وجود بن جاتا ہے ۔ زندگی اور اس کے بیچ فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ زندگی کے حقائق اور تجربات بس دماغ میں منجمد ہوکر رہ جاتے ہیں ، خونِ گرم کا حصّہ نہیں بنتے ۔ انھیں کھیل کود کا بھی شوق تھا ۔ بچوں کی طرح شوخیاں بھی کرتے تھے ۔ حاضر جواب بھی بہت تھے ۔ شیخ نُور محمد یہ سب دیکھتے مگر منع نہ کرتے ۔ جانتے تھے کہ اس طرح چیزوں کے ساتھ اپنائیت اور بے تکلفی پیدا ہوجاتی ہے جو بے حد ضروری اور مفید ہے ۔ غرض اقبال کا بچپن ایک فطری کشادگی اور بے ساختگی کے ساتھ گزرا ۔ قدرت نے انھیں صوفی باپ اور عالم استاد عطا کیا جس سے ان کا دل اور عقل یکسو ہوگئے ، دونوں کا ہدف ایک ہوگیا ۔ یہ جو اقبال کے یہاں حِس اور فِکر کی نادر یکجائی نظر آتی ہے اس کے پیچھے یہی چیز کارفرما ہے ۔ باپ کے قلبی فیضان نے جن حقائق کو اجمالاً محسوس کروایا تھا استاد کی تعلیم سے تفصیلاً معلوم بھی ہوگئے۔ سولہ برس کی عمر میں اقبال نے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ فرسٹ ڈویژن آئی اور تمغہ اور وظیفہ ملا ۔
اسکاچ مشن اسکول میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں بھی شروع ہوچکی تھیں لہٰذا اقبال کو ایف اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا ، وہیں رہے ، یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے ۔ یوں تو شعر و شاعری سے ان کی مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی ، کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کرلیا کرتے تھے مگر اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے ، نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے ۔ لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے ۔ لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ایک مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی تھی ۔اس وقت پورا برصغیر داغؔ کے نام سے گونج رہا تھا ۔ خصوصاً اُردو زبان پر ان کی معجزانہ گرفت کا ہر کسی کو اعتراف تھا ۔ اقبال کویہی گرفت درکار تھی ۔ شاگردی کی درخواست لکھ بھیجی جو قبول کر لی گئی ۔ مگر اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ داغ جگت استاد تھے ۔ متحدہ ہندوستان میں اردو شاعری کے جتنے بھی رُوپ تھے ، ان کی تراش خراش میں داغ کا قلم سب سے آگے تھا ۔ لیکن یہ رنگ ان کے لیے بھی نیا تھا ۔ گو اس وقت تک اقبال کے کلام کی امتیازی خصوصیت ظاہر نہ ہوئی تھی مگر داغ اپنی بے مثال بصیرت سے بھانپ گئے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جاسکتا ۔ یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ اصلاح کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مگر اقبال اس مختصر سی شاگردی پر بھی ہمیشہ نازاں رہے ۔ کچھ یہی حال داغ کا بھی رہا۔

0 comments:

Post a Comment