Saturday 30 March 2013

سعودی عرب مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے صارفین کے لیے نام نہ ظاہر کرنے کی سہولت کو محدود کر کے شناختی دستاویزات کے ذریعے سائٹ تک رسائی کی اجازت دینے کوشش کر رہا ہے۔
یہ عمل حکام کو ملک میں بعض افراد کے ٹوئٹس کی نگرانی کرنے میں آسانی فراہم کرے گا۔
مائیکرو بلاگنگ کی سائٹ سعودی عرب میں بہت مقبول ہے اور اس پر ملک میں حساس سمجھے جانے والے موضوعات پر بحث کی جاتی ہے جن میں مذہب اور سیاست شامل ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی سعودی عرب کے ٹیلی کمیونیکشن کے نگران ادارے نے خبردار کیا تھا کہ سوشل ایپلیکشنز یا ایسے موبائل سہولیات جن سے رابطے مفت اور سہولت سے ہوتے ہیں جیسا کہ وٹس ایپ، وائبر اور سکائپ تک رسائی کو سعودی عرب میں بند کیا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب میں انٹرنیٹ کی سخت نگرانی کی جاتی ہے اور انٹرنیٹ کی سروس مہیا کرنے والی کمپنیاں فحش یا غیر مناسب مواد کو بلاک کرنے کے لیے قانونی طور پر پابند ہیں۔
رواں ماہ کے شروع میں سعودی وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ خاص طور پر ٹوئٹر کو شدت پسند معاشرے میں بدامنی پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق دو ہفتے پہلے سعودی عرب کے ایک نمایاں مذہبی رہنما سلمان ال آودا نے ٹوئٹر کے ذریعے حکومت کی سکیورٹی پالیسی کو بہت سخت قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بہتر سہولیات فراہم کرے۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے’ تشدد بھڑک‘ اٹھنے کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان مذہبی رہنما کو ٹوئٹر پر چوبیس لاکھ افراد فالو کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ رواں ماہ حقوق انسانی کے دو کارکنوں کو ’انٹرنیٹ پر جرائم‘ سمیت مختلف الزامات کے تحت لمبی مدت کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ ان پر انٹرنیٹ پر جرائم کا الزام اس لیے عائد کیا گیا تھا کیونکہ وہ ٹوئٹر اور دوسری سائٹس کو حکومت پر تنقید کے لیے استعمال کرتے تھے۔
سعودی عرب میں شاہ عبداللہ سمیت شاہی خاندان کے کئی افراد ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہیں۔

0 comments:

Post a Comment