Thursday 28 March 2013

مشہور غزل گلوکار غلام علی کا کہنا ہے کہ جیسے آندھی، طوفان کے بعد ایک بار پھر سکون ہوتا ہے اسی طرح سے آج کی شور شرابے والے موسیقی کا دور جب ختم ہوگا تو ایک بار پھر سے غزلوں اور كلاسیكل گائیکی کا دور آئے گا اور اس بات کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔
انہوں نے یہ بات اپنی سوانح زندگی کی تشہیر کے موقع پر بی بی سی سے گفتگو کے دوران کہی۔
’غزل وزرڈ‘ یا غزل کا جادوگر نامی اس کتاب کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس سے ان کی زندگی کے مختلف پہلو ان کے مداحوں کے سامنے آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’اب اس کتاب کے ذریعے میں اپنے چاہنے والوں میں اور زیادہ زندہ رہوں گا کیونکہ اس کتاب سے وہ مجھے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ یاد ہے تو آباد ہے، بھولا ہے تو برباد ہے۔‘
اس بات چیت میں غلام علی نے اپنے بچپن کے دنوں، اپنے والد اور اپنے استاد بڑے غلام علی خاں کا بھی ذکر کیا۔
پاکستان کے سيالكوٹ ضلع کے ایک چھوٹے گاؤں میں پیدا ہونے والے غلام علی نے بتایا کہ ان کے والد، بڑے غلام علی کی زبردست مرید تھے اور ان سے متاثر ہو کر انہوں نے ان کا نام غلام علی رکھا۔
انہوں نے کہا، ’ابتدا میں دس بارہ سال تک گائیکی کے بعد کہیں جا کر مجھے تھوڑی جان پہچان ملی۔ انیس سو چونسٹھ - پینسٹھ میں میری غزلیں تھوڑی ہٹ ہو گئیں۔ پھر 70 کی دہائی میں میری کچھ فلمی غزلیں ہٹ ہوئیں تو میرے والد نے کہا کہ فلمی نغمے تو کوئی بھی گا سکتا ہے تم وہ گاؤ جس میں ماہر ہو۔ میں خوش ہوں کہ میں نے زیادہ فلمی گیت نہیں گائے کیونکہ اس میں پھر کچھ بھی گانا پڑتا۔‘
غلام علی کا کہنا ہے کہ انہیں بھارت اور پاکستان دونوں ہی ممالک سے برابر کا پیار ملا اور دونوں ہی جگہ ہر عمر کے لوگ انہیں چاہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کے پاس وقت بہت کم ہے شاید اس لیے لوگ غزل نہیں سنتے لیکن وہ سنہرا دور ایک بار پھر ضرور لوٹے گا۔
غلام علی نے بتایا کہ وہ مشہور ستار نواز پنڈت روی شنکر، استاد اللہ ركھا خان، مہدی حسن اور اپنے عزیز دوست آنجہانی جگجيت سنگھ کی گائیکی کے مداح ہیں۔

0 comments:

Post a Comment