Monday, 4 March 2013

Kal Ro Liye To Aankh Se Darya Uter Gaya

Posted by Unknown on 20:47 with No comments

اب جی حدودِ سود و زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا

پلکوں پہ آکے رک سی گئ تھی ہر ایک موج
کل رو لیے تو آنکھ سے دریا اتر گیا

شامِ وطن کچھ اپنے شہیدوں کا ذکر کر
جن کے لہو سے صبح کا چہرہ نکھر گیا

آکر بہار کو تو جو کرنا تھا کر گئ
الزام احتیاطِ گریباں کے سر گیا

زنجیرِ ماتمی ہے تم اے عاقلانِ شہر
اب کس کو پوچھتے ہو دِوانہ تو مر گیا

0 comments:

Post a Comment