میرے آقا آﺅ کہ مدت ہوئی ہے
میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے تیری راہ میں اکھیاں بچھاتے بچھاتے
تیری حسرتوں میں تیری چاہتوں میں بڑے دن ہوئے گھر سجاتے سجاتے
میرا یہ ہے ایماں یہ میرا یقیں ہے میرے مصطفی سا نہ کوئی حسیں ہے
کہ رخ ان کا دیکھا ہے جب سے قمر نے نکلتا ہے منہ کو چھپاتے چھپاتے
قیامت کا منظر بڑا پر خطر ہے مگر مصطفی کا جو دیوانہ ہو گا
وہ پل پے گزرے گا مسرور ہو کے نعرہ نبی کا لگاتے لگاتے
میرے لب پے مولا نہ کوئی صدا ہے فقط مجھ نکمے کی یہ ہی دعا ہے
میری سانس نکلے در مصطفی پے غم دل نبی کو سناتے سناتے
یہ ماناکہ اک دن آنی قضا ہے مگر دوستو تم سے یہ التجا ہے
کہ شہر محمد کی ہر اک گلی سے جنازہ اٹھانا گھماتے گھماتے
نہ کعبے سے مطلب نہ مسجد کی چاہت فقط دل میں حاکمؔ تمنا یہی ہے
جو مل جائے نقش کف پائے احمد تو مر جائیں سر کو جھکاتے جھکاتے
0 comments:
Post a Comment