
بڑے بوڑھے بتاتے تھے
کئی قصے سناتے تھے
مگر ہم مانتے کب تھے
یہ سب کچھ جانتے کب تھے
یہ باتیں ذکر کے قابل
بھلا گردانتے کب تھے
انا کے تخت پر بیٹھے
ہمیں معلوم ہی کب تھا
انا کے تخت سے اوپر
بہت ساری بلندی پر
کہیں پریوں کے جھرمٹ میں
تیرے پیروں کی پائل میں
تیرے چھوٹے سے گاؤں میں
گھنی زلفوں کی چھاؤں میں
ستارے چاند سورج
والہانہ رقص کرتے ہیں
ہمیں معلوم ہی کب تھا
تیرے قدموں کی آہٹ پر
گلابی مسکراہٹ پر
تیرے ہونٹوں کی جنبش پر
تیرے سر کے اشارے پر
صداۓ دلبرانہ پر
نگاہ قاتلانا پر
جفاۓ محرمانہ پر
اداۓ کافرانہ پر
چمن کے پھول سارے
اس طرح سے دھیان دیتے ہیں
ذرا سے وصل کے جھانسے میں
اپنی جان دیتے ہیں
ہمیں کب علم تھا جانا
تیرے پیکر سے دھول کر
چاندنی ہر سو بکھرتی ہے
شب وصال کی دوشیزگی
کیسے نکھرتی ہے
تیری پائل کی چھن چھن
من میں کیا گھنٹی بجاتی ہے
تیری آواز ویرانے میں
کیا جادو جگاتی ہے
تیرے نغمیں فضاؤں میں
کس طرح جل ترنگ بجاتے ہیں
بہت پختہ ارادے
کس طرح سے ٹوٹ جاتے ہیں
ہمیں اِدْراک ہی کب تھا
ہمیں کامل بھروسہ تھا
ہمارے ساتھ کسی صورت
بھی ایسا نہیں ہو گا
دل نادان کبھی
قابو سے بےقابو نہیں ہو گا
یہ دنیادار
دنیاداری سے سادھو نہیں ہو گا
مگر
مگر پھر یوں ہوا جانا
جانے کیوں ہوا جانا
بڑا افسوس ہوا جانا
جگر کا خون ہوا جانا
تیرے ابرو کی اک جنبش
سے گھائل ہو گئے ہم بھی
بڑے ہی متافت پھرتے تھے
مائل ہو گئے ہم بھی
سخاوت کرنے آئے تھے
اور سائل ہو گئے ہم بھی
بڑے بوڑھوں کی باتوں کے
قائل ہو گئے ہم بھی
کہ۔۔۔
محبت روگ ہے جانا
عجب سنجوگ ہے جانا
یہ کیسا روگ ہے جانا ؟
0 comments:
Post a Comment