Sunday 24 March 2013


حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی

ء۶۱۴ میں روم اور فارس کے دونوں بادشاہوں میں ایک جنگ ِعظیم شروع ہوئی چھبیس ہزار یہودیوں نے بادشاہ فارس کے لشکر میں شامل ہوکر ساٹھ ہزار عیسائیوں کا قتل عام کیا یہاں تک کہ ۶۱۶ ء میں بادشاہ فارس کی فتح ہوگئی اور بادشاہ روم کا لشکر بالکل ہی مغلوب ہوگیا اور رومی سلطنت کے پرزے پرزے اڑگئے۔ بادشاہ روم اہل کتاب اور مذہباً عیسائی تھا اور بادشاہ فارس مجوسی مذہب کا پابند اور آتش پرست تھا۔ اس لیے بادشاہ روم کی شکست سے مسلمانوں کو رنج و غم ہوا اور کفار کو انتہائی شادمانی و مسرت ہوئی۔ چنانچہ کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا اور کہنے لگے کہ تم اور نصاریٰ اہل کتاب ہو اور ہم اور اہل فارس بے کتاب ہیں جس طرح ہمارے بھائی تمہارے بھائیوں پر فتح یاب ہو کر غالب آ گئے اسی طرح ہم بھی ایک دن تم لوگوں پر غالب آجائیں گے۔ کفار کے ان طعنوں سے مسلمانوں کو اور زیادہ رنج و صدمہ ہوا۔

اس وقت رومیوں کی یہ افسوسناک حالت تھی کہ وہ اپنے مشرقی مقبوضات کا ایک ایک چپہ کھو چکے تھے۔ خزانہ خالی تھا۔ فوج منتشر تھی ملک میں بغاوتوں کا طوفان اٹھ رہا تھا۔ شہنشاہ روم بالکل نالائق تھا۔ ان حالات میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بادشاہ روم بادشاہ فارس پر غالب ہو سکتا تھا مگر ایسے وقت میں نبی صادق صلی الله عليه واله وسلم نے قرآن کی زبان سے کفار مکہ کو یہ پیش گوئی سنائی کہ

الممّ ٓغُلِبَتِ الرُّوْمُ فِيْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْ م بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ ط (روم)

رومی مغلوب ہوئے پاس کی زمین میں اور وہ اپنی مغلوبی کے بعد عنقریب غالب ہوں گے چند برسوں میں ۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ صرف نو سال کے بعد خاص “صلح حدیبیہ” کے دن بادشاہ روم کا لشکر اہل فارس پر غالب آ گیا اور مخبر صادق کی یہ خبر غیب عالم وجود میں آگئی۔

0 comments:

Post a Comment