Wednesday, 27 March 2013

Quaid's Intelligence

Posted by Unknown on 18:48 with No comments

 قائد اعظم کی ذہانت

ایک باربیگماتِ اودھ کی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا ،جس میں 10لاکھ روپے کا دھوکا کیا گیا تھا۔ مدعی غیرمسلم پنڈت شری رام داس تھا اور مدعا علیہ شہر کا ایک غریب مسلمان محمد رمضان۔ مقدمات تو ہوتے رہتے ہیں مگر شرپسند عناصر نے اسے ہندومسلم مسئلہ بنا لیا۔ حد یہ کہ چوٹی کے ہندو وکیل سر تیج بہادر سپرو کی خدمات حاصل کی گئیں، گویا مدعی صاحب مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی جیت چکے تھے۔ اہلِ شہر نے یہی بات مشہور کر دی کہ سرتیج بہادر نے جس روز یہ مقدمہ لڑنے کی ہامی بھری ، مقدمے کا فیصلہ اُسی دن ہوگیا۔ یہ بات مسلمانوں کو مشتعل کرنے والی تھی۔ آخر مسلمان بھی میدان میںڈٹ گئے۔ یہ مقدمہ جنگی صورت اختیار کر گیا۔ یہ سچ ہے کہ تقسیمِ ہند سے پہلے ہندومسلم فسادات کو صرف بہانہ درکار ہوا کرتا تھا۔ مسلمانوں نے اعلان کردیا کہ وہ سپرو صاحب کے مقابلے میں قائداعظم کو میدان میں اتاریں گے۔ یہ گویا چیلنج قبول کرنے والی بات تھی۔
مقدمے والے روز امن و امان کے تحفظ کی خاطر پولیس کی بھاری نفری گشت کرنے لگی۔ سپرو صاحب عدالت میں داخل ہوئے تو ان کا اندازِ تشریف آوری دیدنی تھا۔ ایک بیل گاڑی پر حوالہ جات کی کتب رکھی تھیں۔ ملازمین کی فوج اورکتابوں سے بھری گاڑی تماشائیوں کو مرعوب کر رہی تھی۔
عدالت میں مقدمے کا وقت 10بجے بتایا گیا تھا اور پونے دس بجے تک قائداعظم یا ان کے کسی نمائندے کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ حتیٰ کہ مقدمے کے آغاز میں صرف 5منٹ رہ گئے۔ چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ مسلمانوں کے وکیل صاحب غیرحاضر ہو کر عزت بچانا چاہتے ہیںمگر قانوناً 10 بجے تک عدالت کے اہلکاروں کو انتظار کرنا تھا۔ آخر10 بجے سے صرف ڈیڑھ منٹ پیشتر قائداعظم عدالت کے احاطے میں داخل ہوئے۔ نہ کوئی مشیر نہ ملازموں کی فوج صرف ایک منشی ان کے ساتھ تھا اور حوالہ جات کی کوئی کتاب بھی ان کے پاس نہیں تھی، البتہ ایک پرانی اور چھوٹی سی کتاب انھوں نے تھام رکھی تھی جسے دیکھ کر تماشائی ہنسنے لگے۔
خیر! مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی۔ باہرزندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگ رہے تھے مگر پولیس نے حالات قابو میں کر رکھے تھے۔تیج بہادر سپرو دلائل پر دلائل دے رہے تھے اور فرنگی جج سر ہلا ہلا کر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرما رہا تھا۔ قائداعظم خاموشی سے بیٹھے سن رہے تھے۔ صرف ایک بار انھوں نے دھیمے لہجے میں کہا، یہ ہے اصل نکتے کی بات۔
اس پر وکیلِ استغاثہ نے بھی چونک کر ان کو دیکھا اور حیران ہوا کہ اس نے کون سی ایسی بات کہہ دی ہے جو قائداعظم کو پسند آئی ہے۔ سپرو صاحب عدالت کے برخواست ہونے تک دلائل دیتے رہے اور اسی پر ہی بس نہ ہوئی بلکہ ان کے دلائل 3 روز تک مسلسل جاری رہے۔ سارے اودھ میں پل پل کی کارروائی سنی سنائی جا رہی تھی۔ لوگ زیبِ داستاں کے لیے اس میں کمی بیشی بھی کر رہے تھے۔
مسلمان کہتے تھے کہ اب قائداعظم 3 روز کے جواب میں 10 روز تک دلائل دیں گے اور پانسا ہی پلٹ دیں گے۔ گویا مقدمہ نہ ہوا خون ریز جنگ کا میدان ہوا۔ آخر چوتھے روزقائداعظم نے اٹھ کر فاضل جج کو مناسب تعظیم پیش کرنے کے بعد کہا’’ می لارڈ! مجھے افسوس ہے کہ میرے دوست وکیلِ استغاثہ نے 3 روز تک دلائل کے انبار لگا دیے جبکہ یہ عدالت زیرِبحث مقدمہ سننے کی مجاز ہی نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے پرانی کتاب فاضل منصف کے سامنے رکھی۔ اس پرانی کتاب میں درج تھا کہ 10 لاکھ اور اس سے زائد رقم کے مقدمات صرف خصوصی عدالت میں سنے جائیں گے ،جن کی سربراہی شاہی خاندان کا کوئی فرد کرے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قانون پرانا ہوتا گیا اور کسی کو اس میں ترمیم کا خیال ہی نہ آیا مگر سب کچھ سب کے سامنے تھا۔ جج صاحب ہونقوں کی طرح دونوں وکیلوں کو دیکھنے لگے۔ تیج بہادر سپرو آخر بلند مرتبت وکیل تھے۔ انھوں نے بھی وہ کتاب دیکھی اور پھر اُلٹ پلٹ کر بار بار دیکھتے رہے ۔ پھر انھوں نے بڑے احترام سے سوال کیا ’’جناب ! یہ کتاب آپ نے کہاں سے ڈھونڈ نکالی ہے؟‘‘
’’آپ چاہیں تو یہ کتاب اپنے پاس رکھ لیں۔‘‘ قائداعظم نے مسکرا کر کہا۔
شکریہ! یہ کہہ کر سپروصاحب نے وہ کتاب اپنے ایک ملازم کے حوالے کر دی اور جج سے کہا ’’می لارڈ وکیلِ صفائی درست فرما تے ہیں، میری ساری محنت اکارت گئی۔ یہ عدالت واقعی اتنی مالیت کا مقدمہ سماعت فرمانے کی مجاز نہیں۔‘‘
’’کیا آپ اپنے مؤقف سے دست بردار ہورہے ہیں؟‘‘ جج صاحب نے پوچھا۔
’’جی می لارڈ! ایسا ہی ہے۔‘‘ سر تیج بہادر سپرو نے خندہ پیشانی سے اپنی پسپائی قبول کر لی۔

0 comments:

Post a Comment