Wednesday 27 March 2013

بلا تحقیق کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہیئے

سڑک پر کالے چھولے بکھرے دیکھ کر میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئ ـ اگر چہ اس مسکراھٹ میں گہرا دکھ بھی شامل تھا ـ بکھرے ہوئے چھولوں کے قریب ہی ایک گیارہ بارہ سال کا بچہ چھولوں کی خالی تھالی کو حسرت سے کھڑا تک رھا تھاـ
"اوہ! وہی ڈرامہ میں نے دل میں سوچا اور میرے ذہن میں وہی پرانی کہانی گھوم کرختم ہوگئ،یعنی کالے چھولوں کو بڑی ادا کاری سے سڑک پر بکھیردینا اور اپنی غربت کی من گھٹرت کہانی سنا کر راہگیروں سے پیسے بٹورناـ
ہوں ٹھیک ھے! آج میں بھی دیکھتاہوں ـ یہ سوچ کر میں اپنی موٹر سائیکل اس بچے کے قریب لے آیااور اس کی کہانی اس کی زبانی سننے کے لیے انتظار کرنے لگاـ اس بچے نے ایک اچٹتی نظر مجھ پے ڈالی اور گہری سوچ میں ڈوب گیاـ اچانک مجھے یاد آیا،اس کی تھالی تو میرے سامنے ہی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گری تھی اور ایسا ایک موٹر سائیکل سوار کی ٹکر سے ہواتھاـ
مگر یہ بھی ہوسکتا ھے کہ وہ جان بوجھ کر سائیکل والے کے آگے آگیا ہو، یاپھر ایسا جان بوجھ کر نہ کیا ھومگر وہ کچھ دیر بعد ایسا ہی کرنا چاہتاہو اور سائیکل سوار نے اس کی مشکل آسان کردی ھوـ میں خود ہی سوچ رہاتھا، اس بچے نے ابھی تک کوئ سوال نہیں کیا تھاـ
کیا ہوا ؟ میں نے خود ہی آگے بڑھ کر اس سے پوچھ ہی لیاـ وہ چند لمحے مجھے خاموش نگاہوں سے دیکھتارہا،پہر مختصر لفظوں میں اپنی رواداد سناکر خاموش ہوگیاـ
اچھا !!!میں نے مزاق والے انداز میں اچھا کو کھینچتے ہوئے کہاـ
تو پہر میں کچھ مدد کروں آپ کی!نہ چاہتے ہوئے بھی میرا انداز طنزیہ ہوگیا تھاـ اگرچہ غریبوں کی ہمدردی اور مدد کا جزبہ میرے اندر کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھاـکسی ضرورت مند کی ضرورت کا علم ہوجاتا تو اس وقت تک سکون نہ ملتا جب تک اس کی ضرورت پوری نہ کردیتاـاپنی جیب خرچ کسی غریب پر خرچ کرنے کا موقع مل جاتا تو میرے چہرے سے خوشی کی کرنیں پھوٹ پھوٹ پڑتی تھیں مگر یہ تو سراسر ڈرامہ تھا جسے میں آج اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے ضروری کام چھوڑ کر بھی رک گیا تھاـ
بولوـ میں پہر مزے لینے والے انداز میں بولاـ
آپ مدد کریں تو احسان ہوگاـ بس یہی تو میں اس کی زبان سے سننا چاہتاتھاـجونہی اس نے جملہ مکمل کیاـ میرا زور دار قہقہ فضا میں بلند ہوگیااور اس بچے کو لگاجیسی اس نے یہ کہ کر بھت بڑی غلطی کردی ہوـ وہ خوف زدہ ہوکر پیچھے ہوگیاـشاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھاکہ یہ ہنسنے کاکون ساموقع ھےمگر وہ اس بات سے بے خبر تھاکہ میں ان کارستانیوں کو اچھی طرح جانتاہوں،یہ ادا کاری ھے اور کچھ بھی نہیں ـکچھ دیر میں اس کی طرف دیکھ کر ہنستارہاـاس کا چہرہ اس قدر معصوم تھا کہ اگر مجھے حقیقت کاعلم نہ ہوتا تو میں اپنی جیب سے کل رقم نکال کر اس کے ہاتہ میں تھمادیتاـ
میاں پاگل کسی اور کو بنانا،ہمیں تو معلوم ھے تمھارے ان دھندوں کے بارے میں ـ میں نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکہ کر کہا اور موٹر سائیکل سٹارٹ کرکے آگے بڑھ گیاـ
کچھ ہی دیر بعد میں واپس اسی طرف آرھا تھاـ وہی بچہ چپ چاپ سڑک پر سے اپنے چھولے چننے میں مصروف تھاـمیں کچھ فاصلے پر رہ کر اسے دیکہ رھا تھاـصاف صاف چھولے چننے کے بعداس نے تھالی اٹھائ اور ایک طرف کو چل پڑاـ
؛ہوں تو اس کا کام بن گیاـ
یہ سوچ کر میں بھی اس کے پیچھے چل پڑاـ ہاں اب میں اس شخص کو دیکھنا چاہتاتھا جو اس بچے سے غلط کام کروارھا تھاـ وہ بچہ بھت آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھاـاس کا پیچھا کرنے کے لیے مجھے موٹرسائیکل پیدل چلنے والوں کی طرح چلانی پڑرہی تہی ـتقریبًا20منٹ چلتے رہنے کے بعدوہ ایک تنگ سی گلی میں داخل ہوگیاـیہاں پہنچ کر اس کی رفتار بھت کم ہوگئ ـپہر اس نے گلی کے چوتھے مکان کا دروازہ کھٹکھٹادیاـمیں بھی کچھ فاصلے پر ہی تھاـجلد ہی ایک ادھیڑعمر خاتون نے دروازہ کھولا اور اندر آنے کے لئے راستہ دینے لگی ـ
ماں ـ یہ کہ کر وہ تھالی زمین پر رکھ کرماں سے لپٹ گیااور بلک بلک کر رونے لگاـ
"کیا ہوا میرے بچےـ"وہ خاتون ایک دم پریشان ہو گئ ـ پہر اس نے اک نظر تھالی پر ڈالی اور معاملہ سمجھ کر بولی ـ
کیا ہو نقصان ہو گیا تو، اچھے بچے روتے نہیں ،اللہ سے دعا کرتے ہیں، اللہ پاک نقصان کو پورا کردیں گےـ بلکہ اس سے بہتر عطا فرمائیں گے ـیہ کہ کر اس نے بچے کو ڈھیر سارا پیار دیا اور دروازہ بند کردیاـابھی تک مجھے سب کچھ نظر آرہا تھاـاور اب دروازہ بندہوگیا تھاـادھر میری کیفیت عجیب سے عجیب تر ہوتی جارہی تھی ـ میں غیر ارادی طور پر موٹر سائیکل سمیت ان کے گھر کے دروازے کے قریب آگیاـ گلی میں کوئ نہیں تھاـ
ماں ! میں نے چھولے چن لیے ہیں،سوچا دھوکر ان پر مصالحہ ڈال کرہم شام کو کھالیں گے،شام کے کھانے کا خرچ بچے گاـ
پھرتو رو کیوں رھاتھا؟ماں کے لہجہ میں گہرا شکوہ تھاـ
"ماں میں نقصان پر نہیں رویا تھاـ بچے کا انداز کھویا کھویاساتھاـ
نقصان پر نہیں رویا،پھرکس بات پر رو رھاتھا،ماں نے حیرت سے پوچھاـ بچہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولاـ
ماں آج ایک شخص نے میرا خوب مزاق اڑایا ہے، پتہ نہیں کیوں ـ غریبوں کی کوئ عزت نہیں ہوتی کیا، ان کے سینوں میں دل نہیں ہو تے،پھر، پھریہ امیر لوگ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں ـ
اف میرے مالک ـ مجھ سے مزید کچھ نہ سنا گیاـمیں گلی سے نکل آیاـ اس وقت میں خود کو ندامت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا محسوس کر رہاتھاـ خود پر غصہ آرھاتھا کہ بلا تحقیق کے کسی سے بدگمان ہوا اور ایک غریب کا دل دکھا کر بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ـاب کیا کروں،کچھ سمجھ میں نہیں آرھا تھاـ اس کی مدد کروں تو کیسے؟دل میں عجیب سی بے قرار پیداگئ تھی ـ آخر کچھ سوچ کر میں پلٹ آیا اور اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹادیا ـ دوسری مرتبہ کھٹکھٹانے پر وہی بچہ دروازے پر آیا ـ جیسے ہی اس کی نظر مجھ پے پڑی وہ اُچھل بڑا ـ ادھر مجھ میں اس سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہیں ہورہی تھی ـ میں نے اپنی جیب کے کل پیسے نکالے اور اس بچے کی مٹھی میں دبا دیےـ
"یہ رکھ لو تمھارے کام آئیں گےـ مجھے معاف کردینا مجھ سے ایسا غلط فہمی میں ہوگیا تھا ـ وہ کچھ نہ بولا مگر پیسوں پر اس کی گرفت اتنی ڈھیلی تھی کہ ھاتہ ہٹاتا تو پیسے زمین پر گر جاتےـ
"پلیز"ـ میں نے التجائیہ انداز میں کھا اور اس نے پیسے پکڑ لیےـ میں تیزی سے مڑکر گلی سے نکل آیاـ اس کے چہرے کے تاثرات دیکھے بغیر،ہاں مجھ میں مزید وہاں ٹھہرنے کی ہمت نہیں تھی ـ واپسی پر میں سوچ رھا تھاـ
"اللہ رب العزت کے ہر حکم میں بے شمار مصلحتیں،حکمتیں اور فؤائد پوشیدہ ہوتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی میں نقصان کے سوا کچھ نہیں ـ اللہ پاک نے قرآن کریم میں بلا تحقیق کسی کے عمل پر کوئ قدم اٹھانے سے منع فرمایاھے اور اس حکم کے خلاف ورزی کانقصان آج میری آنکھوں کے سامنے تھاـ

0 comments:

Post a Comment