Wednesday, 20 March 2013

Sabr e Jameel

Posted by Unknown on 22:43 with No comments
 صبرِ جمیل

میں کار پر مکہ جا رہا تھا۔ راستے میں اچانک میرے سامنے کار کا ایک حادثہ ہوا۔ صاف معلوم ہورہا تھا کہ یہ بہت خوفناک حادثہ ہے۔ میں ہی تھا جو سب سے پہلے یہاں پہنچا۔ میں نے اپنی گاڑی کھڑی کردی۔ جلدی سے باہر نکلا اور اس گاڑی کی طرف لپکا تاکہ اس میں جو بھی سوار ہے اس کی جان بچائوں۔ ڈرتے ڈرتے اس کے قریب گیا۔ جونہی اس گاڑی میں جھانکا تو میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ دونوں ہاتھوں پر کپکپی طاری ہوگئی۔ اس ہولناک منظر کی وجہ سے مجھے اپنا سانس رُکتا ہوا محسوس ہوا۔ میری آنکھوں میں نمی آگئی۔عجیب منظر تھا۔ کار کا ڈرائیور بے حس و حرکت سٹیرنگ کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ وہ اُنگشت شہادت سے اشارہ کررہا تھا۔ اس کا چہرہ روشن تھا جس پر گھنی داڑھی اپنی بہار دکھا رہی تھی۔ یوں لگتا تھا گویا وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔
میں نے دیوانہ وار گاڑی کے اندر ادھر اُدھر دیکھا۔ ایک چھوٹا سابچہ نظر آیا۔ وہ اس کی پشت کے ساتھ چمٹاہوا تھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ ڈرائیور کی گردن میں ڈالے ہوئے تھے۔ وہ زندگی کو الوداع کہہ چکا ہے۔
میں نے اس جیسی کوئی میت نہیں دیکھی۔ اس کے چہرے پر سکون تھا ، وقار تھا۔ چہرہ سورج کی طرح چمک رہا تھا۔ انگشت شہادت فوت ہوجانے کے باوجود اللہ کی وحدانیت بیان کررہی تھی۔ اس کا تبسم ابھی تک جوان تھا۔ گزرنے والوں کی گاڑیاں اس کار کے پاس کھڑی ہونے لگیں۔ چیخ پکار مچ گئی۔ یہ سب کچھ بڑی تیزی سے ہوا۔ میں بھول ہی گیا کہ یہ تو دیکھوں گاڑی میں اور کون کون ہے۔ میں بچے کو گم پانے والی ماں کی طرح رونے لگا۔
کچھ معلوم نہ تھا کہ میرے ارد گرد کون ہے۔ جس نے بھی دیکھا، یہی گمان کیا کہ میں میت ہی کا کوئی قریبی عزیز ہوں۔ کچھ لوگ چلائے۔ انھوں نے ایک عورت اور دو بچوں کو پچھلی سیٹ پر دیکھا۔مجھے اور زیادہ صدمہ ہوا۔ میں پچھلی سیٹ کی طرف متوجہ ہوا۔ ایک عورت اپنا لباس سمیٹے بیٹھی تھی۔ اس نے اپنے حجاب کو مضبوطی سے سنبھال رکھا تھا۔ وہ چپ چاپ ہماری طرف دیکھ رہی تھی۔ اس نے دو چھوٹے بچوں کو سینے سے چمٹا رکھا تھا۔ اللہ کی قدرت کہ انھیں کوئی گزند نہیں پہنچا تھا۔
حادثے کی وجہ سے وہ لرزہ براندام تھے۔ خاتون اللہ کاذکر کر رہی تھی اور دونوں بچوں کی ڈھارس بندھا رہی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ ہمت اور حوصلے کی چٹان ہے۔ وہ پوری ثابت قدمی سے کار سے اترنے کی کوشش کرنے لگی۔ وہ رو رہی تھی نہ چلا رہی تھی نہ کوئی واویلا کر رہی تھی۔
ہم سب نے مل کر انھیں کار سے نکالا۔ جس نے بھی مجھے دیکھا اس نے یہی محسوس کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ مصیبت میں مبتلا ہوں۔ میں بہت رویا۔ لوگ میری طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ خاتون میری طرف متوجہ ہوئی اور کار سے اترتے اترتے بھرائی ہوئی آواز میں بولی: ’’اخی فی اللہ!آپ اس پر نہ روئیں۔ وہ بلاشبہ نیک آدمی تھا۔ پھر اس پر آنسو غالب آگئے اوراس کی آواز ڈوب گئی۔
وہ عورت کار سے اتری تو اس نے دو بچوں کو اپنے ساتھ چمٹا رکھا تھا۔ اس نے اپنے حجاب کا جائزہ لیا۔ اس کی سلوٹیں ٹھیک کیں۔ جب اس نے لوگوں کی بھیڑ دیکھی اور شور سنا تو اپنے بچوں کو لے کر دور چلی گئی۔ ایک نیک بخت آدمی آگے بڑھا اوراس کے بچے کو اٹھا کر ہسپتال پہنچا دیا۔ وہ دور سے کھڑی دیکھ رہی تھی اوراپنے بچوں کی نگاہ کو ان کے باپ اور بھائی کی طرف جانے سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
میں اس خاتون کی طرف متوجہ ہوا اور ادب سے عرض کیا: ’’آپ تشریف لائیے۔ میری کار میں سوار ہوجائیے۔ میں آپ کو آپ کے گھر پہنچا دوں گا۔‘‘ اس نے بڑے مضبوط اور پروقار لہجے میں جواب دیا: ’’اللہ کی قسم! میں صرف اس گاڑی میں سوار ہوں گی جس میں عورتیں ہوں گی۔‘‘ آس پاس کھڑے ہوئے لوگ چل پڑے۔ ہر شخص اپنا رستہ ناپ رہا تھا۔ میں دور کھڑا اس مغموم خاتون کو دیکھ رہا تھا اورمحسوس کر رہا تھا کہ مجھ سے اس خاتون کے بارے میں سوال کیاجائے گا کہ تو نے اس کی مدد کیوں نہیں کی۔ بڑا وقت گزر گیا۔ ہم اس مشکل کی گھڑی میں انتظار کی حالت میں کھڑے رہے۔ وہ خاتون اٹل پہاڑ کی طرح استقامت سے کھڑی رہی۔ دو گھنٹے گزر گئے۔ یکایک ہمارے پاس سے ایک کار گزری۔ اس میں ایک آدمی اوراس کا خاندان سوار تھا۔ میں نے اسے روکا۔ اس الم نصیب خاتون کو پیش آمدہ درد ناک حادثے کا ماجرا سنایا اوراس سے درخواست کی کہ اس خاتون کو اپنی گاڑی میں بٹھا لیجیے اوراس کے گھر پہنچا دیجیے۔
وہ مان گیا۔ خاتون اپنے بچوں کو لے کر صبر اور وقار کے ساتھ آگے بڑھی اور گاڑی میں سوار ہوگئی۔ میں یوں محسوس کررہا تھا جیسے وہ خاتون عورت نہیں، استقامت کا پہاڑ ہے۔
میں اپنی کار کی طرف لوٹ آیا۔ میں اس کے صبر جمیل پر حیران تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا: ’’دیکھ، اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کے اہل و عیال کی اس کے اٹھ جانے کے بعد کس طرح حفاظت فرماتا ہے۔‘‘
اس حیا کی پتلی نے اتنے بڑے حادثے کے باوجود بھی حجاب کا خیال رکھا ۔ اور جب میں اپنے معاشرے کی طرف دیکھوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ یہاں کس طرح حجاب کا خون کیا جا رہا ہے

0 comments:

Post a Comment