غم کہاں نہیں ہے؟
لیکن غم کہاں نہیں ہے؟ غم کی
تلاش کتنی آسان ہے .اس کونے کے پیچھے، اس نکڑ پر ... ان ہیولوں میں ... یہ
سامنے غم ہی کا تو سایہ ہے ... یہ غم کے قدموں کی ہی تو چاپ ہے جو چپکے
چپکے تعاقب کر رہا ہے .. یہ غم ہے جو ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔
آسمان تلے جتنے جاندار سانس لیتے ہیں ان میں سب سے زیادہ غمگین انسان ہے جو طرح طرح اپنے آپ کو ایذا پہنچاتا ہے ... کائنات میں صرف انسان ہی ہے جو خودکشی پر آمادہ ہو جاتا ہے ... ورنہ یہ چہچہاتے ہوئے پرندے، کلیلیں کرتے ہوئے چرند، لہلہاتے ہوئے پھول، اپنی مختصر سی زندگی میں کچھ اتنے ناخوش نہیں ... انسان کو اعتقاد کی ضرورت ہے ... یہ اعتقاد خواہ مذہب سے ملے، انسانیت سے یا رفاقت سے، لیکن محکم ہو ... ایسا جیسا مریض کو طبیب پر ہوتا ہے ... افیم کے عادی مریضوں کو جب طبیب سادے پانی کا ٹیکہ لگاتا ہے تو وہ بچوں کی طرح سو جاتے ہیں .. غم کی شدّت اعتقاد کی دشمن ہے ... وہ خود رحمی کی عادت ڈال دیتی ہے ... اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا، اپنے آپ پر ترس کھاتے رہنا نہایت مہلک ہے ... اس سے ساری صلاحیتیں تباہ ہو جاتی ہیں
شفیق الرحمن کی پچھتاوے سے اقتباس---
آسمان تلے جتنے جاندار سانس لیتے ہیں ان میں سب سے زیادہ غمگین انسان ہے جو طرح طرح اپنے آپ کو ایذا پہنچاتا ہے ... کائنات میں صرف انسان ہی ہے جو خودکشی پر آمادہ ہو جاتا ہے ... ورنہ یہ چہچہاتے ہوئے پرندے، کلیلیں کرتے ہوئے چرند، لہلہاتے ہوئے پھول، اپنی مختصر سی زندگی میں کچھ اتنے ناخوش نہیں ... انسان کو اعتقاد کی ضرورت ہے ... یہ اعتقاد خواہ مذہب سے ملے، انسانیت سے یا رفاقت سے، لیکن محکم ہو ... ایسا جیسا مریض کو طبیب پر ہوتا ہے ... افیم کے عادی مریضوں کو جب طبیب سادے پانی کا ٹیکہ لگاتا ہے تو وہ بچوں کی طرح سو جاتے ہیں .. غم کی شدّت اعتقاد کی دشمن ہے ... وہ خود رحمی کی عادت ڈال دیتی ہے ... اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا، اپنے آپ پر ترس کھاتے رہنا نہایت مہلک ہے ... اس سے ساری صلاحیتیں تباہ ہو جاتی ہیں
شفیق الرحمن کی پچھتاوے سے اقتباس---
0 comments:
Post a Comment