ایک تحقیق کی سفارشات کے مطابق ایسے مرد جن کی عمر
چالیس سے زیادہ ہے انہیں ایک ’پی ایس اے‘ ٹیسٹ دیا جا سکتا ہے جس کی مدد سے
پروسٹیٹ کینسر کا پتہ چلایا سکے۔
محققین کے مطابق چالیس سال سے زیادہ عمر والے شخص کو پروسٹیٹ کینسر کے خدشات کا پتہ لگانے کے لئے ’پی ایس اے‘ ٹیسٹ كروانے چاہئیں۔
اگرچہ اس خیال کو متنازعہ بتایا جا
رہا ہے کیونکہ پروسٹیٹ کے لیے کیے گئے مخصوص ٹیسٹ ’پی ایس اے‘ غیر مصدقہ
غلط نتائج بتا سکتے ہیں جسے سے غیر ضروری پریشانی پیدا ہو سکتی ہے۔
سویڈش محقق مانتے ہیں کہ اگر پینتالیس سے انچاس
سال کے عمر کے درمیان کے مردوں کا ’پی ایس اے‘ ٹیسٹ کیا جائے تو اس سے
پروسٹیٹ کینسر سے ہونے والی تقریبا آدھی اموات کی روک تھام ہو سکتی ہے۔
اس تحقیق کے لیے اکیس ہزار سے بھی زیادہ مردوں کے
’پی ایس اے‘ ٹیسٹ کرنے کے بعد سویڈن میں واقع محققین کی ایک ٹیم اس نتیجے
پر پہنچی ہے۔
یورپ میں حال ہی میں جاری کیے گئے پروسٹیٹ کینسر
کے ’پی ایس اے‘ اسکریننگ ٹیسٹ کے نتیجے میں محققین کا کہنا ہے کہ ان ٹیسٹوں
کی مدد سے پروسٹیٹ کینسر سے ہونے والی اموات میں بیس فیصد کمی واقع ہوئی
ہے۔
سویڈن کی لُنڈ یونیورسٹی اور امریکہ کے میموریل
سلون كيٹرگ کینسر سینٹر کے پروفیسر ہانس لليا اور ان کے ساتھی پروفیسروں کا
کہنا ہے کہ ’40 سال سے زیادہ عمر کے مردوں کے لئے باقاعدہ ٹیسٹ کروانا
ضروری ہے۔‘
اس بات کے حق میں وہ 1974 اور 1984 کے درمیان کئے گئے ایک جائزے کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
تحقیق کے اعداوشمار
جب 45 سال سے کم عمر کے شخص کے ٹیسٹ کیے گئے تو پتہ چلا کہ ان میں مہلک کینسر ہونے ہونے کا خطرہ کم تھا۔
اور جب 50 سال کے اوپر کے لوگوں کی ٹیسٹ کیے گئے تو ان میں کینسر کا خطرہ سب سے زیادہ پایا گیا۔
45 سے 49 سال کے درمیان کے مردوں کے ٹیسٹ میں پایا گیا کہ تقریبا آدھے یعنی 44 فیصد مردوں کے معاملے میں کینسر جان لیوا بن چکا تھا۔
ٹیسٹ میں شامل 1،369 مردوں کو پروسٹیٹ کینسر تھا۔
241 میں یہ بیماری پوری طرح پھیل چکی تھی۔
162 ایسے مرد تھے جن کی اس کینسر سے موت واقع ہو چکی تھی۔
اور جب 50 سال کے اوپر کے لوگوں کی ٹیسٹ کیے گئے تو ان میں کینسر کا خطرہ سب سے زیادہ پایا گیا۔
45 سے 49 سال کے درمیان کے مردوں کے ٹیسٹ میں پایا گیا کہ تقریبا آدھے یعنی 44 فیصد مردوں کے معاملے میں کینسر جان لیوا بن چکا تھا۔
ٹیسٹ میں شامل 1،369 مردوں کو پروسٹیٹ کینسر تھا۔
241 میں یہ بیماری پوری طرح پھیل چکی تھی۔
162 ایسے مرد تھے جن کی اس کینسر سے موت واقع ہو چکی تھی۔
اس مطالعہ میں 27 اور 52 سال کے درمیان کی عمر کے
قریباً اکیس ہزار دو سو ستتر سویڈش شہریوں نے حصہ لیا جن کے خون کے نمونوں
کی بنیاد پر یہ ٹیسٹ کیے گئے تھے۔
اس جائزے کے آغاز پر ان تمام مردوں نے اپنے خون کے نمونے دیے جن کو محفوظ کر کے ان پر ’پی ایس اے‘ کے ٹیسٹ کیے گئے۔
ان محققین نے یہ جاننے کی بھی کوشش کی تھی کہ جن
مردوں کے ’پی ایس اے‘ کے ٹیسٹ مثبت تھے کیا وہ بعد میں پروسٹیٹ کینسر کا
شکار ہوئے یا نہیں۔
اور اس طرح یہ ثابت ہوا کہ جن مردوں کا ’پی ایس اے‘ زیادہ تھا ان میں پروسٹیٹ کینسر کا خطرہ زیادہ پایا گیا۔
اب محققین نے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ اس تفتیش کے لئے کون سی عمر سب سے زیادہ موزوں ہو گی۔
جب 45 سال سے کم عمر کے شخص کے ٹیسٹ کیے گئے تو پتہ چلا کہ ان میں مہلک کینسر ہونے کا خطرہ کم تھا۔
اور جب 50 سال کے اوپر کے لوگوں کی ٹیسٹ کیے گئے تو ان میں کینسر کا خطرہ سب سے زیادہ پایا گیا۔
45 سے 49 سال کے درمیان کے مردوں کے ٹیسٹ میں پایا گیا کہ تقریبا آدھے یعنی 44 فیصد مردوں کے معاملے میں کینسر جان لیوا بن چکا تھا۔
ٹیسٹ میں شامل 1،369 مردوں کو پروسٹیٹ کینسر تھا،
241 میں یہ بیماری پوری طرح پھیل چکی تھی اور 162 ایسے مرد تھے جن کی اس
کینسر سے موت واقع ہو چکی تھی۔
ان سب کا یہی نتیجہ نکلا کہ تمام کو 45 سے 50 کے درمیان اپنا ’پی ایس اے‘ ٹیسٹ ضرور کروا لینا چاہئے تھا۔
اس کے علاوہ جن کے ٹیسٹ میں ’پی ایس اے‘ کی سطح
زیادہ ہو وہ اپنے ٹیسٹ جلد از جلد کروائیں جبکہ ایسے مرد جن کی ’پی ایس اے‘
کی سطح عام ہو وہ 50 سال کی عمر پوری ہونے کے بعد اپنا دوسرا ’پی ایس اے‘
ٹیسٹ ضرور کروائیں۔
0 comments:
Post a Comment