بادشاہ کے افعال کا عوام پر اثر
بادشاہ
قرطوس اپنے محل میں تخت پر بیٹھا تھاـاس وقت وہ لوگوں کے مسائل
سناکرتاتھاـ آج کچھ ایسا اتفاق ہوا تھا کہ کوئ بھی سوالی اس کے دربار میں
حاضر نہیں ہوا تھاـ قرطوس کا خیال تھا کہ شایدآج کوئ بھی سوالی نہیں آئے
گاکہ اتنے میں اس کے محل کے باہر لگی گھنٹی بجنے لگی ـ یہ اس بات کا اعلان
تھا کہ سوالی آگیا ھےـقرطوس نے اپنے درباری کو اشارہ کیاـدرباری نےتھوڑا سا
سر جھکایااور اعلان کیا:
فریادی حاضر ہو-"ذراہی دیر میں ایک ادھیڑ عمر مفلوک الحال شخص دربار میں داخل ہوا اور بڑے مؤدبانہ انداز میں کھڑا ہوگیاـ
"مسئلہ بیان کروـ" بادشاہ قرطوس نے رعب دار آواز میں کھا:
"عالی جناہ!میں ایک مسافر ہوں،ایک قافلے کے ساتہ آپ کے شہرمیں آیا تھاـیہاں آکر میری قیمتی اشرفیوں کی تھیلی کہیں گر گئ ـ میں نے ہر چندتلاش کی مگر ناکام رھاـمیں اپنی بیوی سے کہ کر آیا تھا کہ سات دن بعد واپس آجاؤں گا اور میرے شہر کایہاں سے فاصلہ دو دن کی مسافت پر ھےـحضور والا اگر میں کل تک یہاں سے روانہ نہ ہوا تو وقت پر نہیں پہنچ پاؤں گا اور میری بیوی پریشان ہوگی ،کوئ قافلے والا مجھے لے جانے کو تیار نہیں ـمیں آپ سے التجاکرتاہوں کہ میری واپسی کابندوبست کیا جائے اور میری تھیلی کی تلاش کا حکم دیا جائےـ"قرطوس بادشاہ نے کچھ دیر معاملے پر غور کیا اور پہر حکم جاری کیا:
"فریادی کی تھیلی تلاش کی جائے اور جب تک یہ تھیلی نہیں مل جاتی،سائل کے لئے بطور مہمان رہائش اور کھانے کا بندوبست کیا جائےـ"
"لل!لیکن حضور!میری بیوی میرا انتظار کر رہی ہوگی ـ میرے بچے میری راہ تک رھے ہوں گےـ اگر میں نہ پہنچاتو وہ پریشان ہوں گےـ"
"حکم کی تعمیل ہوـ"بادشاہ نے یہ کہ کر بحث کا راستہ بند کر دیاـسائل کا چہرہ لٹک گیااور وہ بڑبڑایا"لگتاھے،حضورکسی کے بچھڑے کی تکلیف نہیں جانتےـ"بادشاہ نے یہ الفاظ سنے اور محفل بر خواست کر دی
اس واقعے کے دوسرے روز ہی بادشاہ نے شکار کا ارادہ کیااور اپنے چند محافظوں کے ساتہ تیز رفتار گھوڑوں پر جنگل میں آگیاـاللہ کا کرنا یہ ہوا جنگل میں پہنچتے ہی آندھی شروع ہو گئ اور آندھی نے طوفان کی شکل اختیارکرلی ـ آسمان گھٹاٹوپ بادلوں سے ڈھک گیاـ اس صورت حال سے گھوڑے بدک گئے اور بادشاہ قرطوس اپنے ساتھیوں سے بچھڑگیاـ اس کا گھوڑا پھلے سر پٹ بھاگتارہا،پہر اس نے جھاڑیوں سے بچنے کے لیے چھلانگ لگائ تو باد شاہ اس پر سے گر پڑا اور اس کے گھٹنے پر چوٹ آگئ ـ اب اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ گھوڑے کوپکڑپاتاـ گھوڑا اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیاـ کافی دیر بعد طوفان میں کمی آئ اور بادشاہ نےاٹھنے کی کوشش کی تو اسے سخت تکلیف محسوس ہوئ ـاس نے قریبی درخت سے ایک شاخ توڑی اور اس کے سہارے ادھر اُدھر راستہ تلاش کرتا رہاـ یونہی پہرتے پہرتے اس کا سارا دن گزر گیاـ بلآخر اسے دور آگ جلتی نظر آئ اور آہستہ آہستہ چلتا وہاں پہنچ گیاـاس نے دیکھا،وہاں ایک جھونپڑی تھی اور ساتہ ہی ایک چھپرسابناتھاـ اس کے نیچے گائے بندھی تھی ـ بادشاہ نے آواز لگائ ـ کوئ ھے"؟" اس کی آواز سن کر جھونپڑے سے ایک بوڑھا آدمی باہر آیا جو بوڑھاہونے کے باوجود بہت مضبوط اعصاب کامالک نظر آرہاتھاـوہ بولاـ" کون ھے"؟"
بادشاہ لاٹھی ٹیکتا ہوا اس کے قریب ہوگیا:
"بھائ میں مسافر ہوں ، راستہ بھٹک گیا ہوں اور زخمی بھی ہوں ـ"
"آؤ! آؤاندر آجاؤـ"بوڑھے نے بادشاہ کا ہاتہ تھام لیااور اندر لے گیاـپہلے اس نے بادشاہ کو پانی پلایااور پہر مرہم پٹی کردی ـجھونپڑے میں ایک بڑھیااور اس کا بیٹا اور بیٹی بھی موجود تھےـ تھوڑی دیر بعد بوڑھے کا بیٹا اٹھا اور گائے کا دودھ دوہنے چلا گیاـ دودھ کے برتن بھر بھر کروہ جھونپڑی میں لاتارہاـ گھر کے سب افراد نے پپیٹ بھر کر دودھ پیااور بادشاہ کو بھی پلایا،پھر بھی دودھ وافر مقدارمیں بچ گیاـبادشاہ نے یہ سب دیکہ کر دل میں سوچا"اب میں واپس جاکراس گائے پر ٹیکس لگادوں گا"یہ تو بھت سارا دودھ دیتی ھےـصبح اسی دوھ سے بڑھیا نے کھیربنائ اور پیالوں میں جمادی ـ وہ سارا دن بادشاہ جھونپڑی میں بڑے آرام سے رہاـ آج رات کو حسب معمول بوڑھے کا بیٹا اٹھا اور سارے برتن لیکر دودھ دوہنے چلا گیامگر ذرا ہی دیر میں پریشان اور اداس چہرہ لیے واپس آگیااور بولاـ"اماں آج گائے نے بھت تھوڑا دودھ دیا ھےـ"
"اوہ ! ہو ! لگتا ھے، بادشاہ رعایا کے ساتہ غلط سلوک کر نے کا ارادہ کر چکا ھےـ"بڑھیانے افسردہ لہجے میں کھاـ
بادشاہ یہ ساری کاروائ دیکہ رھا تھا ـوہ دل ہی دل میں بڑا حیران ہوا،اس نے بدسلوکی کے بجائے انصاف اور حسن سلوک کا ارادہ کر لیاـ
آخر تیسرا دن شروع ہو گیا ـبادشاہ کو اب اپنے بیوی بچے اور محل بھت یاد آرھے تھے اور اس کا دل چاہ رہاتھا کہ کسی طرح وہ اڑکر واپس محل پہنچ جائے مگر وہ سارا دن بھی جھونپڑے میں گزار نا پڑا ـ اس رات کو جب لڑکا دودھ دوہنے کے لیے گیا تو گائے نے خوب دودھ دیاـوہ خوشی سے بولا ـ" اماں آج پہر سے گائے نےڈھیر سارا دودھ دیا ھےـ"
"آہا! لگتا ھے،بادشاہ اپنے برے ارادے سے پھر گیاھےـ"بوڑھیا خوش ہوکر بولی ـاس رات بادشاہ کے سپاہی اسے ڈھونڈ تے ڈھونڈ تے وہاں آپہنچے ـبادشاہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اس نے سپاہیوں سے کہاکہ اس گھر کے مکینوں کو بھی ساتہ لے چلوـ بےچارے بوڑھا بوڑھی اور دونوں بچے یہ جان کر بھت فکر مند ہوئے ان کے جھونپڑے میں تین دن رہنے والا کوئ اور نہیں بلکہ ان کا بادشاہ تھاـ
محل پہنچ کر بادشاہ نے ان گائے والوں کو بھت سا انعام و اکرام دیا اور بڑھیا سے پو چھا"اماں آپ نے کیسے جان لیا تھا کہ بادشاہ کا ارادہ کیا ھے؟"بوڑھیابولی ـ" ہمیں اس مکان میں رہتے مدتیں گزر گئیں ہیں جب ہمارا بادشاہ ہمارے ساتہ عدل و انصاف کر تا ھے تو ہماری زمین سبز ہو جاتی ھے اور ہمیں نفع ہو تا ھے اور جب بادشاہ برا ارادہ کرتا ھے یا ظلم کرتا ھے تو ہماری زندگی تنگ ہو جاتی ھےـ"
بادشاہ نے جو یہ سنا تو دل میں میں بڑا شرمندہ ہوا اور آئند ہر معاملے میں انصاف اور ہمدردی کا فیصلہ کر لیاـاسی وقت وہ مسافر یاد آگیا جس کے واپس جانے پر اس نے پابندی لگا دی تھی ـبادشاہ نے فوراًمسافر کو بلایا، اسے بھی اس کی گمشدہ تھیلی کے برابر اشرفیاں دیں ـاس کی سواری کا بندوبست بھی کردیا اور بولا:"ہمیں معلوم ہوگیا ھے اپنوں کے سے بچھڑنے پر کتناغم ہوتا ھےـ تم صبح ہی قافلے کے ساتہ روانہ ہو جاؤ، تمھارے بیوی بچے منتظر ہوں گےـ"
مسافر خوشی سے پھولا نہیں سمارہا تھا اور پورے دربار میں خوشی کی لہر دوڑ گئ تھی
فریادی حاضر ہو-"ذراہی دیر میں ایک ادھیڑ عمر مفلوک الحال شخص دربار میں داخل ہوا اور بڑے مؤدبانہ انداز میں کھڑا ہوگیاـ
"مسئلہ بیان کروـ" بادشاہ قرطوس نے رعب دار آواز میں کھا:
"عالی جناہ!میں ایک مسافر ہوں،ایک قافلے کے ساتہ آپ کے شہرمیں آیا تھاـیہاں آکر میری قیمتی اشرفیوں کی تھیلی کہیں گر گئ ـ میں نے ہر چندتلاش کی مگر ناکام رھاـمیں اپنی بیوی سے کہ کر آیا تھا کہ سات دن بعد واپس آجاؤں گا اور میرے شہر کایہاں سے فاصلہ دو دن کی مسافت پر ھےـحضور والا اگر میں کل تک یہاں سے روانہ نہ ہوا تو وقت پر نہیں پہنچ پاؤں گا اور میری بیوی پریشان ہوگی ،کوئ قافلے والا مجھے لے جانے کو تیار نہیں ـمیں آپ سے التجاکرتاہوں کہ میری واپسی کابندوبست کیا جائے اور میری تھیلی کی تلاش کا حکم دیا جائےـ"قرطوس بادشاہ نے کچھ دیر معاملے پر غور کیا اور پہر حکم جاری کیا:
"فریادی کی تھیلی تلاش کی جائے اور جب تک یہ تھیلی نہیں مل جاتی،سائل کے لئے بطور مہمان رہائش اور کھانے کا بندوبست کیا جائےـ"
"لل!لیکن حضور!میری بیوی میرا انتظار کر رہی ہوگی ـ میرے بچے میری راہ تک رھے ہوں گےـ اگر میں نہ پہنچاتو وہ پریشان ہوں گےـ"
"حکم کی تعمیل ہوـ"بادشاہ نے یہ کہ کر بحث کا راستہ بند کر دیاـسائل کا چہرہ لٹک گیااور وہ بڑبڑایا"لگتاھے،حضورکسی کے بچھڑے کی تکلیف نہیں جانتےـ"بادشاہ نے یہ الفاظ سنے اور محفل بر خواست کر دی
اس واقعے کے دوسرے روز ہی بادشاہ نے شکار کا ارادہ کیااور اپنے چند محافظوں کے ساتہ تیز رفتار گھوڑوں پر جنگل میں آگیاـاللہ کا کرنا یہ ہوا جنگل میں پہنچتے ہی آندھی شروع ہو گئ اور آندھی نے طوفان کی شکل اختیارکرلی ـ آسمان گھٹاٹوپ بادلوں سے ڈھک گیاـ اس صورت حال سے گھوڑے بدک گئے اور بادشاہ قرطوس اپنے ساتھیوں سے بچھڑگیاـ اس کا گھوڑا پھلے سر پٹ بھاگتارہا،پہر اس نے جھاڑیوں سے بچنے کے لیے چھلانگ لگائ تو باد شاہ اس پر سے گر پڑا اور اس کے گھٹنے پر چوٹ آگئ ـ اب اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ گھوڑے کوپکڑپاتاـ گھوڑا اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیاـ کافی دیر بعد طوفان میں کمی آئ اور بادشاہ نےاٹھنے کی کوشش کی تو اسے سخت تکلیف محسوس ہوئ ـاس نے قریبی درخت سے ایک شاخ توڑی اور اس کے سہارے ادھر اُدھر راستہ تلاش کرتا رہاـ یونہی پہرتے پہرتے اس کا سارا دن گزر گیاـ بلآخر اسے دور آگ جلتی نظر آئ اور آہستہ آہستہ چلتا وہاں پہنچ گیاـاس نے دیکھا،وہاں ایک جھونپڑی تھی اور ساتہ ہی ایک چھپرسابناتھاـ اس کے نیچے گائے بندھی تھی ـ بادشاہ نے آواز لگائ ـ کوئ ھے"؟" اس کی آواز سن کر جھونپڑے سے ایک بوڑھا آدمی باہر آیا جو بوڑھاہونے کے باوجود بہت مضبوط اعصاب کامالک نظر آرہاتھاـوہ بولاـ" کون ھے"؟"
بادشاہ لاٹھی ٹیکتا ہوا اس کے قریب ہوگیا:
"بھائ میں مسافر ہوں ، راستہ بھٹک گیا ہوں اور زخمی بھی ہوں ـ"
"آؤ! آؤاندر آجاؤـ"بوڑھے نے بادشاہ کا ہاتہ تھام لیااور اندر لے گیاـپہلے اس نے بادشاہ کو پانی پلایااور پہر مرہم پٹی کردی ـجھونپڑے میں ایک بڑھیااور اس کا بیٹا اور بیٹی بھی موجود تھےـ تھوڑی دیر بعد بوڑھے کا بیٹا اٹھا اور گائے کا دودھ دوہنے چلا گیاـ دودھ کے برتن بھر بھر کروہ جھونپڑی میں لاتارہاـ گھر کے سب افراد نے پپیٹ بھر کر دودھ پیااور بادشاہ کو بھی پلایا،پھر بھی دودھ وافر مقدارمیں بچ گیاـبادشاہ نے یہ سب دیکہ کر دل میں سوچا"اب میں واپس جاکراس گائے پر ٹیکس لگادوں گا"یہ تو بھت سارا دودھ دیتی ھےـصبح اسی دوھ سے بڑھیا نے کھیربنائ اور پیالوں میں جمادی ـ وہ سارا دن بادشاہ جھونپڑی میں بڑے آرام سے رہاـ آج رات کو حسب معمول بوڑھے کا بیٹا اٹھا اور سارے برتن لیکر دودھ دوہنے چلا گیامگر ذرا ہی دیر میں پریشان اور اداس چہرہ لیے واپس آگیااور بولاـ"اماں آج گائے نے بھت تھوڑا دودھ دیا ھےـ"
"اوہ ! ہو ! لگتا ھے، بادشاہ رعایا کے ساتہ غلط سلوک کر نے کا ارادہ کر چکا ھےـ"بڑھیانے افسردہ لہجے میں کھاـ
بادشاہ یہ ساری کاروائ دیکہ رھا تھا ـوہ دل ہی دل میں بڑا حیران ہوا،اس نے بدسلوکی کے بجائے انصاف اور حسن سلوک کا ارادہ کر لیاـ
آخر تیسرا دن شروع ہو گیا ـبادشاہ کو اب اپنے بیوی بچے اور محل بھت یاد آرھے تھے اور اس کا دل چاہ رہاتھا کہ کسی طرح وہ اڑکر واپس محل پہنچ جائے مگر وہ سارا دن بھی جھونپڑے میں گزار نا پڑا ـ اس رات کو جب لڑکا دودھ دوہنے کے لیے گیا تو گائے نے خوب دودھ دیاـوہ خوشی سے بولا ـ" اماں آج پہر سے گائے نےڈھیر سارا دودھ دیا ھےـ"
"آہا! لگتا ھے،بادشاہ اپنے برے ارادے سے پھر گیاھےـ"بوڑھیا خوش ہوکر بولی ـاس رات بادشاہ کے سپاہی اسے ڈھونڈ تے ڈھونڈ تے وہاں آپہنچے ـبادشاہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اس نے سپاہیوں سے کہاکہ اس گھر کے مکینوں کو بھی ساتہ لے چلوـ بےچارے بوڑھا بوڑھی اور دونوں بچے یہ جان کر بھت فکر مند ہوئے ان کے جھونپڑے میں تین دن رہنے والا کوئ اور نہیں بلکہ ان کا بادشاہ تھاـ
محل پہنچ کر بادشاہ نے ان گائے والوں کو بھت سا انعام و اکرام دیا اور بڑھیا سے پو چھا"اماں آپ نے کیسے جان لیا تھا کہ بادشاہ کا ارادہ کیا ھے؟"بوڑھیابولی ـ" ہمیں اس مکان میں رہتے مدتیں گزر گئیں ہیں جب ہمارا بادشاہ ہمارے ساتہ عدل و انصاف کر تا ھے تو ہماری زمین سبز ہو جاتی ھے اور ہمیں نفع ہو تا ھے اور جب بادشاہ برا ارادہ کرتا ھے یا ظلم کرتا ھے تو ہماری زندگی تنگ ہو جاتی ھےـ"
بادشاہ نے جو یہ سنا تو دل میں میں بڑا شرمندہ ہوا اور آئند ہر معاملے میں انصاف اور ہمدردی کا فیصلہ کر لیاـاسی وقت وہ مسافر یاد آگیا جس کے واپس جانے پر اس نے پابندی لگا دی تھی ـبادشاہ نے فوراًمسافر کو بلایا، اسے بھی اس کی گمشدہ تھیلی کے برابر اشرفیاں دیں ـاس کی سواری کا بندوبست بھی کردیا اور بولا:"ہمیں معلوم ہوگیا ھے اپنوں کے سے بچھڑنے پر کتناغم ہوتا ھےـ تم صبح ہی قافلے کے ساتہ روانہ ہو جاؤ، تمھارے بیوی بچے منتظر ہوں گےـ"
مسافر خوشی سے پھولا نہیں سمارہا تھا اور پورے دربار میں خوشی کی لہر دوڑ گئ تھی
0 comments:
Post a Comment