Wednesday, 17 April 2013

A Story From Iqbal's Life

Posted by Unknown on 21:20 with No comments
اقبال فرماتے ہیں

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں ، مری جبین نیاز میں

لیکن یہ حقیقت بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گی کہ اس عشق اور بے خودی کے پیچھے اقبال کے والدین کی تعلیم و تربیت کا بہت زیادہ عمل دخل ہے

یہ حیات اقبال رھ کا ایک معروف واقعہ ہے جسے شاعر مشرق نے اپنی فارسی مثنوی "رموز بے خودی (1918) میں بیان کیا ہے ۔ مثنوی کے متعلقہ حصے کا عنوان ہے ۔ " در معنٰی ایں کہ حسن سیرت ملیہ از تادب و بآداب محمدیہ است "

اقبال کہتے ہیں

میرے لڑکپن کا زمانہ بلکہ آغاز شباب تھا ۔ ایک روز ایک بھکاری ہمارے گھر کے دروازے پر ایا اور اونچی اونچی آواز سے بھیک مانگنے لگا ۔ میں نے چاہا کہ ٹل جاۓ مگر وہ پیہم صدا بلند کرتا رہا ۔ مجھے غصہ آ گیا۔ جوش جذبات میں اچھے برے کی تمیز نہ رہی اور میں نے اس کے سر پر ایک لاٹھی دے ماری ۔ اس نے ادھر اُدھر سے مانگ کر جو کچھ بھی جمع کیا تھا ۔ وہ سب کچھ اسکی جھولی سے زمین پر گر گیا ۔ والد صاحب یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔ میری اس حرکت سئ بے حد آرزدہ ہوۓ ۔ چہرہ مرجھا گیا اور افسردگی چھا گئی ۔ ان کے لبوں سے ایک جگر سوز آہ نکلی اور دل سینے میں تڑپ اٹھا ۔ ستارے جیسا ایک آنسو آنکھوں سے نکلا،، پلکوں پر چمکا اور گر گیا ۔ یہ دیکھ کر مجھے بے حد ندامت ہوئی اور خفت ہوئی کہ میں نے والد صاحب کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اپنی اس حرکت پر بے قراری بھی ہوئی ( کہ اب مداوا کیسے ہو ) اسی کیفیت میں والد ماجد کہنے لگے " امت مسلمہ کل اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جمع ہو گی ۔ ان میں ہر طبقے کے لوگ ہونگے ۔ غازی ، حفاظ حدیث ، شہداء ، اکابر امت ، زاہد وعالم اور گنہگار بھی ، اس موقع پر اس دردمند کی صدا بلند ہوگی (وہ فریاد کرے گا کہ مجھ سے ایک نوجون نے زیادتی کی ہے ) چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے مخاطب ہونگے

حق جوانے مسلمے با تو سپرد

کو نصیبے از دبستانم نبرد

از تو ایں یک کا آساں ہم نہ شد

یعنٰٰی آں انبار گل آدم نہ شد

(حق تعالٰی نے ایک نوجوں مسلمان کو تیرے سپرد کیا تھا کہ تو اسے صحیح تعلیم و تربیت دے ) لیکن اس نوجون نے میری ادب گاہ سے کوئی سبق حاصل نہ کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے فرمائیں گے کہ تو یہ آسان کام بھی نہ کر سکا ۔ یعنی تجھ سے ایک تودہء مٹی آدمی نہ بن سکا ۔

والد نے مزید فرمایا ۔ اگر چہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ملامت میں بھی نرم گفتار ہی ہونگے ۔ مگر میں تو سخت شرمندہ ہونگا اور امید و بیم میں گرفتار ہونگا ۔ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہا " بیٹا ذرا سوچو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے جمع ہونے کا منظر تصور میں لاؤ پھر میری سفید داڑھی اور لرزنے کے منظر کو نگاہ میں رکھو ۔ اس کے بعد بڑے دردمند لہجے میں کہنے لگے ۔

بر پدر ایں جور نازیبا مکن

پیش مولا بندہ را رسو مکن

غنچہ ای از شاخسار مصطفٰی

گل شو از باد بہار مصطفٰی

از بہارش رنگ و بوباید گرفت

بہرہء از خلق او باید گرفت

" دیکھو بیٹا اپنے باپ پر نازیبا ظلم نہ کرو (کل ) آقا صلٰوۃ والسلام کے سامنے غلام کو رسوا نہ کرنا ۔ تو شاخسار مصطفٰٰی کا ایک غنچہ ہے َ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے نسیم بہار سے شگفتہ ہو کر پھول بن جا ۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہار سے رنگ و بود حاصل کر ، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق عظیم کی اتباع کر ۔

0 comments:

Post a Comment