استنبول شہر کے ایک محلے فاتح
میں ایک غریب مگر مخلص اور دردمند دل رکھنے والا شخص خیرالدین آفندی رہتا
تھا۔ خیرالدین آفندی کا جب بھی بازار سے گزر ہوتا اور اسے کوئی کھانے کی
چیز اچھی لگتی یا کبھی پھل، گوشت یا پھر کسی مٹھائی وغیرہ کے کھانے کا دل
کرتا تو وہ اپنے آپ کو کہتا صانکی یدم، یعنی یہ چیز تو میری کھائی ہوئی ہے
یا اس کا مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ فرض کیا یہ چیز میری کھائی ہوئی ہے، اور
اس کے ساتھ ہی وہ اس چیز کو کھانے پر خرچ ہونے والے پیسوں کو علیحدہ کرتا
اور گھر جا کر ایک صندوقچی میں ڈال دیتا۔
مہینوں اور سالوں تک یہ شخص اپنے آپ کو دنیا کی لذت سے محروم رکھ کر پیسے اکٹھے کرتا رہا اور یہ تھوڑے تھوڑے پیسے اس صندوقچی کو بھرتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ بیس سال کے بعد وہ دن آن ہی پہنچا جب خیرالدین آفندی کے پاس اتنے پیسے جمع ہو چکے تھے کہ وہ ان سے اپنے محلے میں ایک مسجد تعمیر کر سکتا تھا۔ محلے میں مسجد کی تعمیر ہونے پر جب اہل محلہ کو اس غریب مگر اپنے مقصد کیلئے اس قدر خلوص نیت کے ساتھ جدوجہد کرنے والے شخص کا قصہ معلوم ہوا تو انہوں نے اس مسجد کا نام ہی صانکی یدم رکھ دیا۔ یہ تصویر اسی مسجد کی ہے
ہم لوگوں کو اپنا ذہن اور اپنی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس کسی رفاہی کام میں دینے کیلئے زیادہ پیسے ہوتے نہیں اور تھوڑے دیتے ہوئے ہم ندامت اور خجالت محسوس کرتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر ہم کچھ بھی نہیں کر پاتے۔
گھروں میں نعمتوں کی بھرمار ہوتی ہے، سبزیاں اور پھل فریج میں رکھے رکھے باسی اور خراب ہو رہے ہوتے ہیں مگر وافر سامان خریدتے ہوئے ہمارے منہ سے کبھی بھی یہ فقرہ نہیں نکلتا کہ یہ چیزیں تو ہم نے کھائی ہوئی ہیں تاکہ بچ جانے والے وہ پیسے ہم کسی مستحق کو ہی دیدیں۔
مہینوں اور سالوں تک یہ شخص اپنے آپ کو دنیا کی لذت سے محروم رکھ کر پیسے اکٹھے کرتا رہا اور یہ تھوڑے تھوڑے پیسے اس صندوقچی کو بھرتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ بیس سال کے بعد وہ دن آن ہی پہنچا جب خیرالدین آفندی کے پاس اتنے پیسے جمع ہو چکے تھے کہ وہ ان سے اپنے محلے میں ایک مسجد تعمیر کر سکتا تھا۔ محلے میں مسجد کی تعمیر ہونے پر جب اہل محلہ کو اس غریب مگر اپنے مقصد کیلئے اس قدر خلوص نیت کے ساتھ جدوجہد کرنے والے شخص کا قصہ معلوم ہوا تو انہوں نے اس مسجد کا نام ہی صانکی یدم رکھ دیا۔ یہ تصویر اسی مسجد کی ہے
ہم لوگوں کو اپنا ذہن اور اپنی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس کسی رفاہی کام میں دینے کیلئے زیادہ پیسے ہوتے نہیں اور تھوڑے دیتے ہوئے ہم ندامت اور خجالت محسوس کرتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر ہم کچھ بھی نہیں کر پاتے۔
گھروں میں نعمتوں کی بھرمار ہوتی ہے، سبزیاں اور پھل فریج میں رکھے رکھے باسی اور خراب ہو رہے ہوتے ہیں مگر وافر سامان خریدتے ہوئے ہمارے منہ سے کبھی بھی یہ فقرہ نہیں نکلتا کہ یہ چیزیں تو ہم نے کھائی ہوئی ہیں تاکہ بچ جانے والے وہ پیسے ہم کسی مستحق کو ہی دیدیں۔
0 comments:
Post a Comment