Saturday, 20 April 2013

Fix Bilateral Issues

Posted by Unknown on 08:42 with No comments
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیاروں کی محفل میں رونق محفل کی حیثیت سے تشریف فرما تھے کہ اچانک مسکرائے، سب حیران ہوئے۔ وہ جو محبوب کی ہر حرکت و ادا پر قربان ہونے کے عادی اور اس کی حقیقت تک پہنچنے کے خواہاں ہوتے تھے، اس ادائے دل رُبا پر خاموش نہ رہ سکے اور آخر پوچھ ہی لیا۔
"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں قربان، آپ ہمیشہ اسی طرح مسکراتے ہی رہیں۔ اس وقت مسکرانے کا کیا سبب ہے"؟
کسی خاص تصور سے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ بعد میں سلسلہ کلام سے واضح ہوا کہ دو امتی یاد آگئے تھے، وہ دونوں ایک دوسرے سے نالاں تھے، دونوں نے رب العالمین کے حضور حاضری دی۔ ایک نے اللہ کے دربار میں دوسرے کے خلاف شکایت پیش کی:
’’یا اللہ! میرے اس بھائی نے دنیا میں مجھ پر ظلم کیا تھا، میں اس سے اپنا حق وصول کرنا چاہتا ہوں یارب! میرے اس دینی بھائی سے میرا حق لے کر دے۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’ اس کے پاس تو کوئی نیکی نہیں بچی۔‘‘ وہ بندہ کہے گا۔ تو یہ میرے گناہوں کا بوجھ اٹھائے۔ اس شخص کی بے مروتی اور دوسرے کی مجبوری کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حسین آنکھوں میں آنسو آگئے، فرمایا : ’’یہ بہت بڑا دن ہوگا، لوگ چاہیں گے کہ دوسرے ان کا بوجھ اٹھالیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ سائل سے فرمائیں گے، نگاہیں اٹھا کر دیکھو۔ وہ جنت کے حسین و جمیل مناظر سونے کے محلات اور دیگر آسائش کی قیمتی چیزیں دیکھ کر دنگ رہ جائے گا اور پوچھے گا۔ یہ کس نبی کی ملکیت ہیں؟ اس کو بتایا جائے گا۔کہ یہ اس کی ملکیت ہیں، جو ان کی قیمت دے دے۔ وہ حسرت سے کہے گا: بھلا ان کی قیمت کون ادا کرسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: ’’اپنے بھائی کو معاف کرکے تو ان کی قیمت ادا کرسکتا ہے۔ وہ فوراً راضی ہوکر کہے گا : میں نے اس کو معاف کیا۔ اللہ پاک فرمائیں گے: ’’اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ اور اسے لے کر جنت میں چلا جا۔‘‘
اس طرح اللہ پاک مظلوم کو جنت دے کر راضی کریں گے اور جو زیادتی کرنے والا ہے اس کا کام بھی بن جائے گا۔
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو نصیحت اور وصیت فرمائی۔ ’’باہمی معاملات ٹھیک کرو، رنجشیں مٹاؤ، ایک دوسرے کو مناؤ۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان قیامت کے دن صلح کرائے گا اور ان کے شکوے دور کرے گا یہاں تک کہ جس شخص نے دنیا میں اپنے بھائی پر زیادتی کی ہوگی اور وہ بھائی اس سے ناراض ہوگا اور مطالبہ کررہا ہوگا کہ اس کے نقصان کی تلافی کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کو جنت دے کر راضی کریں گے اس طرح مظلوم بھی خوش ہوجائے گا اور زیادتی کرنے والا بھی چھوٹ جائے گا۔ ‘‘
(حاکم، المستدرک، کتاب الاھوال، 4 : 620 رقم : 8718)

0 comments:

Post a Comment