Tuesday, 23 April 2013

آنحضور کی چہیتی زوجہ مطہرہ حضرت عائشۃ صدیقہ رضی اللہ عنہا

طبعی میلان :۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرد صحابہ میں سے سب سے زیادہ محبت اور تعلق خاطر حضرت ابو بکر صدیق
رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ امہات المو منین میں سے سب سے زیادہ قلبی محبت اور طبعی میلان حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے برتاؤ کے لحاظ سے اپنی ازواج کے درمیان مکمل عدل و مساوات قائم رکھتے تھے۔ جہاں تک طبعی میلان کا تعلق ہے اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کیا کرتے تھے کہ اس پر آپ کا اختیار نہیں اس لیے اس پر مواخذہ نہ کیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ طبعی میلان پر انسان کا زور و اختیار نہیں ہوتا۔ ظاہری معاملات میں بھی وہی شخص انصاف کا مظاہرہ کر سکتا ہے جو اللہ کے خوف سے مالا مال ہو۔

ذہانت کا نمونہ :۔
حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا بہت خوب صورت بھی تھیں اور نہایت زیرک و سمجھ دار بھی۔ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں تحقیق شدہ روایات کے مطابق12 یا15 سال کی عمر میں آئیں۔ ان کی ذہانت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ بالکل چھوٹی بچی تھیں اور اپنی ہم عمر بچیوں کے ساتھ کھلونوں سے کھیل رہی تھیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ان بچیوں کے پاس سے گزر ہوا۔ بچیوں کے کھلونوں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک گھوڑا تھا جس کے پر تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا عائشہ رضی اللہ عنہا یہ کیا ہے تو انھوں نے جواب میں کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ گھوڑا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” گھوڑا کیسے ہے ؟ گھوڑوں کے تو پر نہیں ہوتے “۔ اس پر بنت ِ صدیق نے نہایت معصومانہ انداز میں ایک پتے کی بات کہی۔ عرض کیا ”اے اللہ کے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے تو پر تھے۔ “ اس ذہانت بھرے جواب پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور چہرہ انور متبسم ہو گیا۔

رخصتی :۔
روایات میں آتاہے کہ مہاجرین مکہ کو مدینہ آ کر آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے آغاز میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ حضرت ابو بکر صدیق اور ان کی بیٹی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنمھا بھی شدید بیمار پڑ گئے ۔ جب حضرت عائشہ صحت یاب ہو ئیں تو حضرت ابو بکر نے آنحضور سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب آپ اپنی اہلیہ کو اپنے گھر کیوں نہیں لے جاتے ۔ نکاح اس سے پہلے ہو چکا تھا ، رخصتی ابھی عمل میں نہیں آئی تھی ۔ نکاح کے وقت حق مہر طے ہو گیا تھا جو پانچ سو درہم تھا مگر ابھی تک اس کی ادائیگی نہیں ہوئی تھی ۔ آنحضور
صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چاہتے تھے کہ مہر کی ادائیگی کے بغیر زوجہ مطہرہ کی رخصتی عمل میں آئے ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی اس بات کا علم تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فقر و فاقہ کا شکار ہیں چنانچہ انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خود رضا کارانہ طور پر پانچ سو درہم قرض حسنہ کے طور پر پیش کیے۔ آپ نے اپنے یار غار کی پیش کش قبول کی اور قرض کی یہ رقم لے کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو ادا کر دی ۔ نکاح اور رخصتی کے درمیان تقریباً دو سال کا عرصہ گزرا ۔ حضرت عائشہ ؓ کی عمر اس وقت سولہ یا سترہ سال تھی۔

درد ناک واقعہ :۔

  بیت نبوی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ماہ و سال میں کئی نشیب و فراز نظر آتے ہیں ۔ سب سے بڑا واقعہ جس نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پریشانی میں مبتلا کیے رکھا واقعہ افک ہے ۔ یہ غزوہ بنی المصطلق کے سفر میں پیش آیا ۔ حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق منہ اندھیرے قافلہ چل پڑا ۔اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رفع حاجت کے لیے جنگل کی طرف نکلی ہوئی تھیں۔ کجاوہ اٹھا کر اونٹ پر رکھنے والے صحابہ یہ سمجھے کہ شاید زوجہ مطہرہ اس میں تشریف فرما ہیں لیکن وہ اس میں موجود نہ تھیں۔ اس بے خبری میں فوج کوچ کر گئی ۔ آپ رضی اللہ عنہا واپس آئیں تو اس خیال سے وہیں مقیم ہو گئیں کہ جب قافلے کو معلوم ہوگا کہ میں ہودج میں نہیں ہوں تو واپس پلٹیں گے۔ اس وقت رات ابھی باقی تھی اس لیے بیٹھے بیٹھے انہیں نیند آ گئی ۔ وہیں زمین پر لیٹیں اور سو گئیں۔
حضرت صفوان رضی اللہ عنہ جن کی دربار ِ رسالت کی طرف سے یہ ذمہ داری ہوا کرتی تھی کہ رات کو کوچ کی صورت میں وہ قیام گاہ پر رک جایا کریں اور صبح روشنی ہونے پر ساری قیام گاہ کا جائزہ لے لیا کریں کہ کسی کی کوئی چیز تو پیچھے نہیں رہ گئی ۔ اس صبح جب وہ اٹھے تو ام المومنین کو وہاں موجود پایا ۔ انہوں نے اپنااونٹ قریب لا کر بٹھا دیا اور دوسری طرف منہ کر کے بلند آواز سے انا للہ پڑا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آنکھ کھل گئی۔ حضرت صفوان بن معطل ایک بہت نیک سیرت انسان تھے۔ حضرت عائشہ بلا خوف و خطر اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ صحابی رسول نے اونٹ کی نکیل پکڑی اور ام المومنین
رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے کر فوج کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔

منافقین کی خباثت :۔

اس واقعہ کو بنیاد بنا کر منافقین نے ایک طوفان اٹھایا۔ عبداللہ بن ابی ّ اس سارے فتنے کا سرغنہ تھا۔ پاکدامن صدیقہ پر یہ تہمت اتنی بڑی جسارت تھی کہ اس کا تصور بھی ناممکن ہے لیکن بہر حال یہ واقعہ افک رونما ہوا اور جھوٹے پراپیگنڈے سے تین مخلص صحابہ بھی متاثر ہوگئے یعنی حضرت حسان بن ثابت ، حضرت مسطح بن اثاثہ اور حضرت حمنہ بنت ِ جحش رضی اللہ تعالی عنھم۔ منافقین کئی دنوں تک اس اذیت ناک صورتحال کو ہوا دیتے رہے۔ اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر یہ لمحات کس قدرگراں تھے اس کا تصور کر کے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس سارے طوفان کا پتہ کئی دن بعد چلا جب ان کی رشتے کی خالہ اور مسطح کی والدہ نے اپنے بیٹے کو بد دعا دی ۔ انہیں تعجب ہوا کہ اتنے اچھے بیٹے کو بد دعا کیوں دی جا رہی ہے ۔ اس موقع پر ان کی خالہ کی زبانی ان کے سامنے حقیقت حال کھلی۔

اذیت کے شب و روز :۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ قضائے حاجت کے لیےگھر سے باہر جارہی تھیں ۔ اس بات کا سننا تھاکہ عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا پر سکتہ طاری ہو گیا ۔ وہ ہر چیز کو بھول گئیں اور پریشانی کے عالم میں وہیں سے واپس اپنے والد کے گھر لوٹ گئیں۔ فتنے کے یہ سارے ایام ان کے لیے سوہان روح تھے۔ وہ بستر سے لگ گئیں ۔ کسی سے بولتی چالتی بھی نہیں تھیں ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ان کی زوجہ بالکل بے گناہ ہیں اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی یقین تھا کہ ان کی بیٹی میں کوئی عیب نہیں ۔ عام صحابہ بھی اس بات پہ مطمئن تھے کہ صدیقہ پر لگنے والا الزام جھوٹ ہے لیکن ابھی تک ہر جانب خاموشی تھی تاآنکہ خود رب کائنات نے اس خاموشی کو توڑا۔ سورہ نور میں وہ آیات نازل ہوئیں جنھوں نے منافقین کے منہ میں خاک ڈال دی ۔ بہک جانے والے مسلمانوں کو کذب کی سزا بھگتنا پڑی اور پورے معاشرے کو سرزنش کی گئی کہ کیوں نہ مسلمان مرد اور عورتیں اس افترا کو سنتے ہی پکار اٹھے کہ یہ افک مبین ہے ۔ یوں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بے داغ کردار قرآن کے صفحات کی زینت بن گیا۔

مناقب عائشہ
رضی اللہ عنہا
حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا کی برات کا حکم آیا تو ان کے والدین نے کہا کہ چلو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کرو ۔ انہوں نے بے ساختہ کہا کہ میں تو اللہ کے سامنے سجدہ شکر ادا کرتی ہوں جس نے میری برات کا اعلان کیا ہے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑی محبت کیا کرتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور قول ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو خواتین پر ویسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مقیم تھے ۔ان دنوں چونکہ آپ کا دوسری امہات المومنین کے حجروں میں منتقل ہونا تکلیف کا باعث ہو سکتا تھا لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے اجازت لے لی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں ہی آپ مقیم رہیں ۔ ان ایام میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دن رات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور تیمار داری کرتی رہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بھی اعزاز ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت انہی کے حجرے میں ہوئی اور پھر یہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آخرم آرام گاہ بنی ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تھا جب آپ کی روح رفیق اعلیٰ کی جانب محو پرواز ہو گئی۔

بڑے دل والے :۔
حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا بہت عالم و فاضل خاتون تھیں۔ وہ مفسرہ قرآن اور محدثہ بھی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کی فقاہت بھی انہیں حاصل تھی ۔ ان کی عظمت کے کیا کہنے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ جنہوں نے واقعہ افک میں غلط فہمی کی بنیاد پر غلطی کر لی تھی انہیں نہ صرف معاف کر دیا بلکہ اگر کوئی انہیں اس واقعہ کے حوالے سے برا بھلا کہتا تو اسے سختی سے منع فرما دیا کرتیں۔ ان کے مناقب بیان کرتے ہوئے کہتیں کہ یہ وہ عظیم شخص ہے جس نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی طرف سے اپنے لازوال اشعار میں کفار کے زہریلے اشعار کا مسکت جواب دیا تھا ۔ اسی طرح انہوں نے حضرت حمنہ اور حضرت مسطح کو بھی معاف کر دیا تھا۔
حضرت ابو بکر مسطح کی غربت کی وجہ سے ان کے پورے گھرانے کی کفالت کیا کرتے تھے ۔ اس واقعہ کے بعد انہوں نے قسم کھا لی کہ اس شخص کی مدد نہیں کریں گے لیکن جب صدیقہ کی برات و پاکدامنی کی گواہی وحی میں آئی اور ساتھ ہی سورہ نور کی آیت نمبر22 میں یہ حکم آیا ” تم میں سے جو لوگ صاحب فضل اور صاحب مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتے دار ، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے ۔ انہیں معاف کر دینا چاہیے اور در گزر کرنا چاہیے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفورا ور رحیم ہے۔“ تو انہوں نے فوراً رجوع کر لیا ۔ قسم کا کفارہ ادا کیا اور حضرت مسطح کی حسب سابق امداد بحال کر دی۔ یہ بڑے دل والے لوگ تھے۔ عظمت کی ہر چوٹی انہوں نے سر کر لی ۔


جنگ جمل کا افسوسناک واقعہ :۔

حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا اگرچہ جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر نکل کھڑی ہوئی تھیں لیکن بعد میں انہیں اس غلطی کا افسوس ہوا ۔اس جنگ کو یاد کر کے بے ساختہ رونے لگتیں اور کہا کرتیں اے کاش میں اپنے گھر سے نہ نکلی ہوتی ۔ اے کاش میں بیس سال پہلے فوت ہو گئی ہوتی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ہمیشہ ان کا ذکر خیر کیا اور ا ن کی اسلامی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ۔

علم و عرفان کا سورج :۔

حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا نے مدینہ منورہ میں وفات پائی تو ان کی عمر تقریباً73 سال تھی ۔ ان کی وفات پر پورے عالم اسلام میں غم کی لہر دوڑ گئی ۔ روایات میں آتاہے کہ رات کے وقت ان کا جنازہ اٹھا تو مدینے کی گلیوں میں ہجوم تھا اور جنت البقیع میں ہر جانب انسان ہی انسان تھے محدث صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور وہ جنت البقیع میں آسودہ خاک ہوئیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔ وہ ام عبداللہ کی کنیت سے معروف تھیں لیکن یہ عبداللہ ان کے بیٹے نہیں بھانجے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تھے ۔ یہ کنیت بھی انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے اختیار کی تھی ۔ ان کے اٹھ جانے سے علم و عرفان کا سورج غروب ہو گیا اور فقہ و اجتہاد کا بڑا دریا خشک ہو گیا ۔ انہوں نے صحابہ و تابعین کی صورت میں ہزاروں مرد و خواتین شاگرد اپنے پیچھے چھوڑے ۔ رضی اللہ عنھا و رضیت عنہ

0 comments:

Post a Comment