پڑھے لکھے ،فلاسفر لوگ
زیادہ پڑھے لکھے بندوں کے بھی
سر کے پیچ کچھ ڈھیلے ہوجاتےہیں، ایسا فلسفہ پیش کرتے ہیں کہ آئن سٹائن کی
روح بھی پریشان ہوجائے کہ میں نے زندگی میں ایسا کیوں نہ سوچا تھا۔
پڑھے لکھے بندوں کی تین قسمیں ہیں۔
ایک وہ جو میٹرک کی ناکامی سے دلبرداشتہ ہوکر ، تیز پتی والی چائے بنا تے ہیں اور اسے پلا کر روزگار کماتے ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ وہ جو بیچلر یا ماسٹر کی ڈگری لیے پکوڑے تلتے ہیں، سموسے بناتے ہیں، مارکیٹنگ کرتے ہیں، اگر باپ امیر ہو تو کاروبار کرتے ہیں۔
تیسری قسم ان کی ہے جو اس سے بھی زیادہ پڑھ کر ذہنی طور پر قابل رحم ہو جاتے ہیں، بلکہ اپنی باتوں سے لوگوں کی حالت بھی قابل رحم بناتے ہیں، ہر وقت فلسفہ پیش کرتے ہیں۔ مذہب ہو ، جغرافیہ ہو، شاعری ہو کوئی بھی ادب کی صنف ہو، ایسے پرخچے اڑاتے ہیں، کہ ادب خود اپنے ہاتھ جوڑ لیتا ہے کہ مجھ پر رحم کریں ، آپ بیشک میرا ادب نہ کریں ، مگر میں آپ کا ادب کرتا ہوں۔
مذہب کی بات ہو، دو پڑھے لکھے بندے بیٹھے ہوں، ایسا 'ایسا زاویہ پیش کریں گے، کہ اشفاق صاحب مرحوم کا زاویہ بھی نوے ڈگری گھوم جائے گا، معاشرے کی بات ہو تو ایسی باتیں کریں گے، جیسے معاشرے میں ان کا ضمیر ہی زندہ ہے، باقی سب کا ضمیر میٹھی نیند سو رہا ہے، گفتگو اور بحث کے دوران اتنے جذباتی ہوجائیں گے، جیسے ابھی انقلاب لا کر ہی اٹھیں گے۔
ایسے لوگ رات کو دیر تک محفلیں جماتے ہیں اور رات کے آخری پہر دبے پاؤں گھر جاتے ہیں، اگر بیوی سے بچ نکلے تو خیر ، ورنہ بیوی کے سامنے کہاں ان کا فلسفہ چلتا ہے۔ منہ سے بس بلی کےبلونگڑے سی آواز نکلتی ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ وہ بیگم میں۔۔۔ ۔۔ آفس میں مصروف تھا۔۔۔ کام کچھ زیادہ تھا۔۔۔ اس وجہ سے لیٹ ہوگیا۔۔۔ میں۔۔
بیوی شکی سی نظر ڈالتی ہے، قریب جاکر کوٹ چیک کرتی ہے، کہیں کسی غیر محرم کا بال کوٹ پر تو نہیں ہے ، یہ ہی واحد امتحان ہوتا ہے ان پڑھے لکھے لوگوں کی زندگی کا کہ وہ اس ٹیسٹ سے پاس ہوجائیں ، اگر کوٹ پر غلطی سے بال وغیرہ نظر آجائے، چاہے آفس کی سیکٹری کا ہی غلطی سے لگ گیا ہو، تو پھر سارا فلسفہ جو ہفتے بھر لوگوں کو سنا سنا کر ان کی زندگی اجیرن کی ہوتی ہے، صرف چند منٹوں میں ان کا خلاصہ بیوی ڈوئی کے ساتھ لگا کر منہ پر مارتی ہے۔۔۔◔̯◔
پڑھے لکھے بندوں کی تین قسمیں ہیں۔
ایک وہ جو میٹرک کی ناکامی سے دلبرداشتہ ہوکر ، تیز پتی والی چائے بنا تے ہیں اور اسے پلا کر روزگار کماتے ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ وہ جو بیچلر یا ماسٹر کی ڈگری لیے پکوڑے تلتے ہیں، سموسے بناتے ہیں، مارکیٹنگ کرتے ہیں، اگر باپ امیر ہو تو کاروبار کرتے ہیں۔
تیسری قسم ان کی ہے جو اس سے بھی زیادہ پڑھ کر ذہنی طور پر قابل رحم ہو جاتے ہیں، بلکہ اپنی باتوں سے لوگوں کی حالت بھی قابل رحم بناتے ہیں، ہر وقت فلسفہ پیش کرتے ہیں۔ مذہب ہو ، جغرافیہ ہو، شاعری ہو کوئی بھی ادب کی صنف ہو، ایسے پرخچے اڑاتے ہیں، کہ ادب خود اپنے ہاتھ جوڑ لیتا ہے کہ مجھ پر رحم کریں ، آپ بیشک میرا ادب نہ کریں ، مگر میں آپ کا ادب کرتا ہوں۔
مذہب کی بات ہو، دو پڑھے لکھے بندے بیٹھے ہوں، ایسا 'ایسا زاویہ پیش کریں گے، کہ اشفاق صاحب مرحوم کا زاویہ بھی نوے ڈگری گھوم جائے گا، معاشرے کی بات ہو تو ایسی باتیں کریں گے، جیسے معاشرے میں ان کا ضمیر ہی زندہ ہے، باقی سب کا ضمیر میٹھی نیند سو رہا ہے، گفتگو اور بحث کے دوران اتنے جذباتی ہوجائیں گے، جیسے ابھی انقلاب لا کر ہی اٹھیں گے۔
ایسے لوگ رات کو دیر تک محفلیں جماتے ہیں اور رات کے آخری پہر دبے پاؤں گھر جاتے ہیں، اگر بیوی سے بچ نکلے تو خیر ، ورنہ بیوی کے سامنے کہاں ان کا فلسفہ چلتا ہے۔ منہ سے بس بلی کےبلونگڑے سی آواز نکلتی ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ وہ بیگم میں۔۔۔ ۔۔ آفس میں مصروف تھا۔۔۔ کام کچھ زیادہ تھا۔۔۔ اس وجہ سے لیٹ ہوگیا۔۔۔ میں۔۔
بیوی شکی سی نظر ڈالتی ہے، قریب جاکر کوٹ چیک کرتی ہے، کہیں کسی غیر محرم کا بال کوٹ پر تو نہیں ہے ، یہ ہی واحد امتحان ہوتا ہے ان پڑھے لکھے لوگوں کی زندگی کا کہ وہ اس ٹیسٹ سے پاس ہوجائیں ، اگر کوٹ پر غلطی سے بال وغیرہ نظر آجائے، چاہے آفس کی سیکٹری کا ہی غلطی سے لگ گیا ہو، تو پھر سارا فلسفہ جو ہفتے بھر لوگوں کو سنا سنا کر ان کی زندگی اجیرن کی ہوتی ہے، صرف چند منٹوں میں ان کا خلاصہ بیوی ڈوئی کے ساتھ لگا کر منہ پر مارتی ہے۔۔۔◔̯◔
0 comments:
Post a Comment