Tuesday, 23 April 2013

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا
 نام ونسب
حفصہ نام حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ سلسلہ نسب اس طرح ہے حفصہ بنت عمرابن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن ربا ع بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن لوی بن فہر بن مالک
والدہ کا نام زینب بنت مظعون تھا جو مشہور صحابی حضرت عثمان بن مظعون کی ہم شیرہ تھیں اور خود بھی صحابیہؓ تھیں حضرت حفصہ اور حضرت عبداللہ بن عمر حقیقی بھن بھائی تھے حضرت حفصہ ؓبعثت نبوت سے پانچ سال قبل پیداہوئیں اس وقت قریش خابہ کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے۔

نکاح
پہلانکاح خنیس بن خذافہ سے ہواجو خاندان بنوسہم سے تھے

اولاد

آپ
رضی اللہ عنہا نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی

اسلام
ماں باپ اور شوہر کے ساتھ مسلمان ہوئیں

ہجرت اور نکاح ثانی
شوہر کے ساتھ مدینہ کو ہجرت کی ،غزوہ بدرمیں حضرت خنیسؓ نے زخم کھائے اور واپس آ کران ہی زخموں کی وجہ سےشہادت پائی عدت کے بعد حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو حضرت حفصہ
رضی اللہ عنہا کے نکاح کی فکر لاحق ہوگئی اسی زمانہ میں حضرت رقیہؓ کا انتقال ہو چکا تھا اس بنا پر حضرت عمرفاروقؓ سب سے پہلے حضرت عثمانؓ سے ملے اور ان سے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی خواہش ظاہرکی انھوں کہا میں اس پر غور کروں گا، چند دنوں کے بعد ملاقات ہوئی تو صاف انکار کردیا حضرت عمرفاروقؓ نے مایوس ہو کر حضرت ابوبکرصدیقؓ سے ذکر کیا انھوں نے خاموشی اختیار کی حضرت عمرؓ کوان کی بے التفاتی سے رنج وغم ہوا۔(اور یہ سب کچھ اس لیے ہی ہورہا تھا کہ ایک عظیم المرتبت ہستی سے نکاح ہونا تھا)
اس کے بعد خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی خواہش کی،چنانچہ نکاح ہوگیا
بعدازاں حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ سے ملےاور کہا کہ جب تم نے مجھ سے حفصہ
رضی اللہ عنہا کے نکاح کی خواہش کی اور میں خاموش ہو رہا تو تم کو ناگوار گذرا۔ لیکن میں نے اسی بنا پرکچھ جواب نہیں دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر کیا تھا۔ اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنا نہیں چاہتا تھا اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سےنکاح کا قصد نہ ہوتا تو میں ان کے لیے آمادہ تھا(صحیح بخاری ج۲ص۵۷۱اور اصابہ ج۸ص۵۱)

فضل وکمال

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کئی صفات کی جامع تھیں، آپ کا فضل وکمال اس سے ہی ظاہر ہے کہ آپ سے 60 احادیث مروی ہیں جو انھوں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے سنی تھیں(زرقانی ج۳ ص۲۷۱)
اس کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت حمزہ، صفیہ بنت ابوعبید، حارثہ بن وہب، مطلب بن ابی وادعہ، ام مبشر انصاریہ، عبداللہ بن صفوان بن امیہ اورحضرت عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم آپ کے شاگردوں میں سے ہیں(زرقانی ج۳ ص ۲۷۱)۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اخلاق اور زہدوتقوی میں بھی در یکتا تھیں ابن سعد میں ہے کہ وہ دن کو روزہ رکھنے والی اور رات کو قیام (نفل وتہجد میں) کرنے والی تھیں اور حسن اتفاق کہ جس وقت ان کی وفات ہوئی تھی تو وہ حالت روزہ میں تھیں

وفات
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نےماہ شعبان ۴۵ سن ہجری میں مدینہ میں انتقال کیا۔ یہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا زمانہ تھا، مروان نے جو اس وقت مدینے کا گورنرتھا نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک جنازہ کو کاندھا دیا،اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جنازہ کو قبر تک لے گئے،ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اور ان کے چاروں بیٹوں عاصم، سالم، عبداللہ اور حمزہ رضی اللہ عنہم نے قبر میں اتارا
یاد رکھیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سن وفات میں اختلاف ہے
ایک روایت ہے کہ جمادی الاولی سن ھ ۴۱ میں وفات پائی اس وقت ان کی عمر۵۹ سال تھی
اور ایک دوسری روایت کے مطابق آپ
رضی اللہ عنہا کی وفات سنہ ھ۴۸ میں ہوئی اس اعتبار سے پھر عمر 63 سال ٹھہرتی ہے

ایک یہ روایت بھی ہے کہ انھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت سنہ ھ ۲۷ میں وفات فرمائی۔ یہ روایت اس بنا پر پیدا ہو گئی کہ وہب نے ابن مالک سے روایت کی ہے کہ جس سال افریقہ فتح ہوا حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اسی سال انتقال کیا اور افریقہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سنہ ھ ۲۷ میں فتح ہواتھا لیکن یہ سخت غلطی ہے،اس لیے کہ افریقہ دو مرتبہ فتح ہوا تھا دوسری مرتبہ فتح حضرت معاویہ بن خدیج کے ہاتھوں ہوئی تھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں چنانچہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی وفات بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہی ہوئی تھی

0 comments:

Post a Comment