Tuesday, 23 April 2013

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا
نام ونسب
خدیجہ نام ام ہند کنیت طاہرہ لقب سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے
خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ،قصی پر پہنچ کر آپ کا خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سےمل جاتاہے۔
والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھااورلوی بن بن غالب کے دوسرےبیٹے عامر کی اولاد تھیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد اپنے قبیلے میں نہایت معززشخص تھے مکہ آکر اقامت کی عبدالدارابن قصی کے جو ان کے چچا کے بیٹے تھےحلیف بنے اور یہیں فاطمہ بنت زائدہ سے شادی کی جن کے بطن سے عام الفیل سے ۱۵ سال قبل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پیداہوئی(بحوالہ طبقات ابن سعدج۸ ص ۸،۱۰)
سن شعور کو پہنچیں تو اپنے پاکیزہ اخلاق کی بنا پرطاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں(بحوالہ۔اصابہ ج ۸ ص ۶۰)

نکاح اول

باپ نے ان صفات کا لحاظ رکھ کر شادی کے لیے ورقہ بن نوفل کو جو برادرزاد ہاور تورات وانجیل کےبہت بڑے عالم تھے منتخب کیا۔ لیکن پھر کسی وجہ سے یہ نسبت نہیں ہوسکی اور ابو ہالہ بن بناش تمیمی سے نکاح ہوگیا
(بحوالہ۔استیعاب ج ۲ ص ۳۷۵)
ابو ہالہ کے بعدعتیق بن عابدمخزومی کے عقد نکاح میں آئیں۔
اسی زمانہ میں حرب الفجار(جنگ)چھڑی جس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد لڑائی کے لیے نکلےاور مارے گئے
(بحوالہ۔طبقات ج۸ ص ۹)یہ عام الفیل سے 20 سال بعد کا واقعہ ہے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد نکاح میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی دولت وثروت اور شریفانہ اخلاق نے تمام قریش کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور ہر شخص ان سے نکاح کا خواہاں تھا لیکن کارکنان قضاوقدر کی نگاہ انتخاب کسی اور پر پڑ چکی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مال تجارت لیکر ملک شام سے واپس آئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نےشادی کا پیغام بھیجا۔ نفیسہ بنت مینہ (یعلی بن امیہ کی ہمشیرہ) اس خدمت پر مامور ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور فرمایا(بحوالہ۔طبقات ج ۱۔ص ۸۴)
اور شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد محترم اگرچہ وفات پا چکے تھے تاہم ان کے چچا عمروبن اسد زندہ تھے عرب میں عورتوں کو یہ آزادی حاصل تھی کہ شادی بیاہ کے متعلق خود گفتگو کر سکتی تھیں۔ اسی بنا پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے چچا کے ہوتے ہوئے براہ راست تمام مراتب ومراسم طے کیے۔
معین تاریخ پر حضرت خواجہ ابوطالب اور تمام رؤسائے خاندان جن میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف لیکر آئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے خاندان کے چند بزرگوں کو جمع کیا تھا حضرت خواجہ ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا عمروبن اسد کے مشورے سے۵۰۰ سو طلائی درہم مہر قرار پایا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حرم نبوت ہو کر ام المؤمنین کے شرف سے ممتاز ہوئیں۔
اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۲۵ سال کے تھےاورحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر۴۰ سال تھی یہ بعثت سے ۱۵ سال پہلے کا واقعہ ہے
(بحوالہ۔صحیح بخاری ج ۱ص ۲،۳)۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اسلام قبول کرنا

۱۵ برس کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ہوئے اور فرائض نبوت کو ادا کرنا چاہا توسب سے پہلے حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا کو یہ پیغام سنایا وہ سننے سے پہلے مؤمن تھیں،،سبحان اللہ۔۔ کیونکہ ان سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدق دعوی کا کوئی شخص فیصلہ نہیں کر سکتا تھا۔(بحوالہ۔صحیح بخاری ج۱ باب بدء الوحی)

اولاد

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہت سی اولاد ہوئی ابوہالہ سے جوان کے پہلے شوہر تھے دوبچے پیدا ہوئے جن کے نام ہالہ اور ہند تھے۔ دوسرے شوہر یعنی عتیق سے ایک لڑکی پیدا ہوئی آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ اولادیں ہوئیں دو صاحبزادے جو بچپن میں انتقال کر گئے اور چار صاحبزادیاں سب کے نام درج ذیل ہیں
(۱)حضرت قاسم
رضی اللہ عنہ۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے بیٹے تھے ان ہی کے نام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم ہے
وہ صغر سنی میں ہی انتقال کرگئے جب بمشکل چلنا شروع ہوئے تھے
(۲)حضرت زینب رضی اللہ عنہا یہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں
(۳)حضرت عبداللہ
رضی اللہ عنہ انھوں نے نہایت کم عمر پائی۔ یہ چونکہ زمانہ نبوت میں پیداہوئے تھےاس لیے طیب اورطاہرکے لقب سے مشہورہوئے
(۴)حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
(۵)حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا
(۶)حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا
(بحوالہ۔طبقات ابن سعد ج۸ص۱۱)

وفات
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد۲۵ برس تک زندہ رہیں
اور۱۱ رمضان ۱۰ نبوی اور ہجرت سے تین سال قبل۶۴ سال ۶ ماہ کی عمر میں اس فانی دنیا سے رخصت ہو کر عقبی کی طرف رخت سفر باندھ کر مالک حقیقی سے جاملیں
(بحوالہ۔بخاری ج۱ص۵۵۱)
چونکہ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہیں ہوئی تھی اس لیےان کی لاش اسی طرح دفن کردی گئی۔
آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسار کو داعی اجل کے سپرد کردیا
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی قبرجحون میں ہے اور مرجع خلائق ہے
(بحوالہ۔طبقات ابن سعد ج ۸ ص ۱۱

0 comments:

Post a Comment