امّ المؤمنین حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنھا
یہود دنیا کی وہ بدترین قوم ہیں جن کا مجموعی کردار انتہائی گھناﺅنا ، اخلاق عالیہ سے فروتر اور شرارت و خباثت سے مملو ہے ۔ اللہ کے نبیوں کو ان کے ہاتھوں ناقابل بیان اذیتیں پہنچتی رہیں ۔ انبیائے کرام کے قتل اور اہل حق کی مخالفت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی پھٹکار نازل فرمائی ۔ قرآن مجید میں ان کا کردار بہت واضح انداز میں بیان کیا گیاہے لیکن ان میں ان ساری برائیوں کے باوجود کچھ لوگ بھلے بھی تھے ۔ اگرچہ ان کی تعداد بہت کم تھی ۔ ان راستبازوں کا ذکر بھی قرآن میں کئی مقامات پرآتا ہے ۔
سورہ آل عمران کی آیت311 تا511میں اچھے عناصر کی یہ استثنائی مثال پیش کی گئی ہے ۔ قرآن کے مطابق یہ لوگ راہ راست پر قائم اور اللہ کی آیات پر کاربند تھے ۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض بھی ادا کرتے تھے اور اللہ کے آگے سجدہ ریز بھی ہوتے تھے ۔ ایسے ہی اہل خیر میں سے ایک تعداد حضور پر ایمان لائی اور زمرہ صحابہ میں شامل ہو گئی ۔ ان خوش نصیبوں میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی ۔ وہ خاتون کتنی خوش بخت تھی جو یہود کے اعلیٰ نسب خاندن میں پیدا ہوئی ، وہیں پروان چڑھی ، اسلام دشمنی اور پیغمبر آزاری کا ماحول اپنے گھر میں پایا مگر داور محشر نے اس کی قسمت میں سعادت دارین لکھ دی ۔ وہ پستی سے بلندی کی جانب گامزن ہوئیں اور اعلیٰ مقام پر سرفراز ہوگئیں ۔
یہ عظیم خاتون صفیہ بنت حیی کے نام سے معروف ہیں جنہیں ام المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ حیی بن اخطب بنو نظیر کا سردار تھا ۔حضرت صفیہ کی والدہ بنو قریظہ کے شرفا میں سے تھی ۔ غزوہ خیبر میں جب لشکر اسلام کو فتح ملی اور مال غنیمت کے علاوہ جنگی قیدی بھی ہاتھ آئے تو صفیہ آنحضور کے صحابی حضرت دحیہ کلبی کے حصے میں آئیں ۔ چونکہ وہ لوگوں کے درمیان اپنی خاندانی وجاہت کی وجہ سے معروف تھیں اس لیے کبار صحابہ نے آنحضور کو تجویز پیش کی کہ صفیہ کو کسی اور کو بطور کنیز نہ دیا جائے بلکہ آنحضور خود اسے اپنی کنیزوں میں شامل فرما لیں ۔
آنحضور انسانوں کی قدر جانتے تھے اور عزت والوں کی عزت کو ملحوظ بھی رکھاکرتے تھے ۔ آپ نے صحابہ کی تجویز کو پسند فرمایا ۔ صفیہ کو اپنی تحویل میں لیا اور پھر لوگوں کے سامنے اعلان فرمایا کہ آپ نے اسے آزاد کر دیاہے ۔ حضرت صفیہ نے خلوص دل کے ساتھ دین حق کو قبول کر لیا ۔پھر آپ نے صفیہ سے نکاح کر کے انہیں اپنی ازواج مطہرات میں شامل فرما لیا ۔ حضرت صفیہ نے اسلام میں داخل ہونے کے بعد علم و عمل، دونوں میدانوں میں خوب محنت کی اور بڑا درجہ پایا ۔ آنحضور کی زوجیت میں آنے سے قبل دو مرتبہ یہودیوں کے درمیان ان کا نکاح ہوا تھا۔ان کے پہلے خاوند سلام بن مشکم نے انہیں طلاق دے دی تھی جبکہ دوسری شادی کنانہ بن ربیع سے ہوئی جو غزوہ خیبر میں مسلمانوں کے مقابلے پر مارا گیا تھا ۔
امام بیہقی حضرت صفیہ کی زبانی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد حیی اور چچا ابو یاسر یہود کے بڑے سردار اور علما تھے ۔ آنحضور کی ہجرت کے بعد دونوں بھائی آپ کو دیکھنے کے لیے قبا گئے ۔ واپسی پر وہ دونوں تھکے ماندے اور پریشان حال تھے ۔ دونوں بھائیوں کے اس انہماک اور تفکرکو ذہین و فطین صفیہ نے غور سے دیکھا اور سنا۔ آپس میں آنحضور کے بارے میں ہی گفتگو کر رہے تھے ۔ لب لباب یہ تھاکہ یہ وہی سچا نبی ہے جس کی بشارت کتب سماویہ میں دی گئی تھی ۔
اس گواہی کے بعد ابو یاسر نے اپنے بھائی سے پوچھا تو پھر اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اس نے جواب دیا ” بخدا میں زندگی بھر اس کی مخالفت کرتا رہوں گا ۔“ حضرت صفیہ نے یہ ساری گفتگو سنی والد اور چچا کے رعب کی وجہ سے وہ خاموش رہیں مگر ان کے دل میں ایک کشمکش برپا ہو گئی ۔ وہ سوچنے لگیں کہ اگر تورات کے ورثا حقیقت کو پا لینے کے بعد بھی محض ضد اور عناد کی وجہ سے رسول برحق کا انکار کر رہے ہیں تو پھر اللہ کے برگزیدہ بندے اور منتخب قوم ہونے کا یہود کا دعویٰ کیا وزن رکھتا ہے ۔یہ پہلی چوٹ تھی جو دل پر لگی ۔ صاف دل اور راست رو صفیہ اس کے بعد اس معاملے پر مسلسل سوچ بچار کرتی رہی۔
کئی سالوں بعد جب آنحضور نے یہودیوں کی مسلسل خباثتوں اور بدعہدیوں کی وجہ سے خیبر کے قلعوں کا محاصرہ کیا تو یہود بڑی رعونت سے لشکر اسلام کے مقابلے پر ڈٹ گئے قلعے کے اندرلوگ بیم و رجا کی کیفیت میں تھے اور نوجوان صفیہ کے دل میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی ۔ خاندان کی محبت ایک جانب اور حقیقت و صداقت کا اعتراف دوسری جانب ۔ اسے یقین سا ہوچلا تھا کہ حق غالب آئے گا اور اس کا باپ اور قبیلہ شکست کھا جائے گا، آخر ایسا ہی ہوا ۔ یہود بہت بری شکست سے دوچار ہوئے ۔ آنحضور کو عظیم الشان فتح ملی ۔ یہودی جنگجو مارے گئے ، جو بچے غلام بنا لیے گئے ۔
آنحضور حضرت صفیہ کے قبول اسلام کے بعد ان سے بڑی محبت کرتے تھے ۔ سیدہ صفیہ کے بارے میں مورخین بیان کرتے ہیں کہ وہ انتہائی ذہین اور عقلمند ، حسین و جمیل اور دیندار ، متحمل مزاج اور باوقار ، شریف النفس اور عالی نسب خاتون تھیں ۔ان کے بارے میں ایک واقعہ تاریخ میں ملتاہے ۔ آنحضور نے ان کی آنکھ کے اوپر زخم کانشان دیکھا تو اس کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ میں نے ایک خواب دیکھاتھا جو میں نے اپنے خاوند کے سامنے بیان کر دیا تھا ۔ خواب یہ تھاکہ چاند آسمان سے اترا اور میری گود میں آ گرا ۔ اس خواب کا سننا تھاکہ میرے خاوند نے میرے منہ پر زور دار تھپڑ رسید کیا ۔ پھر گالی دے کر کہاکہ اس کی تعبیر یہی ہے کہ تم یثرب کے بادشاہ پر فریفتہ ہو ۔ اس کا اشارہ آنحضور کی طرف تھا ۔
اس خواب اور حضرت صفیہ کی اپنے والد اور چچا کی آنحضور کے بارے میں گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام بہت پہلے ان کے دل میں گھر کر گیا تھا مگر قبول اسلام کی منزل فتح خیبر کے بعد آئی ۔ آنحضور کے لیے ان کے دل میں بہت پہلے سے نرم گوشہ موجود تھا ۔آخر ان کی خوش قسمتی سے انہیں ماہ کامل کی رفاقت میسر آگئی ۔ازواج مطہرات میں شمولیت اور مومنین کی ماں ہونے کا مقام کوئی معمولی بات نہیں۔
آنحضور ان سے بہت زیادہ حسن سلوک کیا کرتے تھے کیونکہ ان کا خاندان قتل ہو چکا تھا۔ شادی کے بعد حضرت صفیہ کو پہلے دن حضرت اُمِّ سُلَیم کے گھر میں بطور دلہن لایا گیا ۔ بعد میں کچھ ایام ان کو حضرت حارثہ بن نعمان انصاری کے گھر میں ٹھہرایا گیا ۔ صحابیات انھیں دیکھنے کے لیے جمع ہو گئیں ۔ وہ اتنی خوبصورت تھیں کہ تمام خواتین نے ان کے حسن و جمال کی تعریف کی ۔ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت حفصہ نے انہیں بنت الیہودی کہہ کر خطاب کیا تو حضرت صفیہ نے آنحضور سے شکایت کی ۔آپ نے حضرت صفیہ کو تسلی دی اور فرمایا ” تمہیں کہہ دینا چاہیے تھاکہ بی بی سنو ، میرا خاوند محمد ہے ۔ میرے باپ ہارون علیہ السلام اور میرے چچا موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ ہیں ۔“ آنحضور کی یہ بات سن کر حضرت صفیہ کا سینہ ٹھنڈا ہو گیا ۔
ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے ام المومنین حضرت صفیہ کو ان کے پست قد ہونے کا طعنہ دیا تو آنحضور نے فرمایا ” عائشہ آج تم نے ایسی بات کہہ دی کہ اگر یہ سمندر میں ملا دی جائے تو سارا سمندر اس کے اثر سے کڑوا ہو جائے ۔“ چونکہ حضرت صفیہ اپنے خاندان اور ماحول سے کٹ چکی تھیں اس لیے آنحضور ان کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے ۔ خود حضرت صفیہ کی راویت ہے کہ میں نے آنحضور سے بڑھ کر کسی کو حسن اخلاق کا نمونہ نہیں پایا ۔
0 comments:
Post a Comment