حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا
نام ونسب
زینب نام ام الحکیم کنیت قبیلہ قریش کے خاندان اسد بن خزیمہ سے ہے
سلسلہ نسب یہ ہے ۔ زینب دنت جحش بن رباب بن یعمر بن صبرہ مرہ بن کثیربن غنم بن دودان سعد بن خزیمہ
والدہ کا نام امیمہ تھا جو عبدالمطلب جد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر تھیں اس بنا پر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پھوپھی زاد بھن تھیں
اسلام
نبوت کے ابتدائی دور میں اسلام لائیں اسدالغابہ ج ۵ ص 463 میں ہے کانت قدیمۃ الاسلام کہ وہ قدیم الاسلام تھیں
نکاح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو آپ کے آزاد کردہ غلام اور متبنی تھے ان کا نکاح کردیا۔ اسلام نے دنیا میں مساوات کی جو تعلیم رائج کی ہے اور پست وبلند کو جس طرح ایک جگہ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے،اگرچہ تاریخ میں اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں لیکن یہ واقعہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت رکھتا ہے کیونکہ اسی عملی تعلیم کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ قریش اور خصوصا خاندان ہاشم کو تولیت کعبہ کی وجہ سے عرب میں جو درجہ حاصل تھا اس کے لحاظ سے شاہان یمن بھی ان کے ہمسری کا دعوی نہیں کرسکتے تھے لیکن اسلام نے محض تقوی کو بزرگی کا معیار قرار دیا اور فخروادعاء کو جاہلیت کا شعار ٹھہرایا ہے،اس بنا پر اگرچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ بظاہرغلام تھے تاہم چونکہ وہ مسلمان اور مرد صالح تھےاس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ حضرت رضی اللہ عنہا کا عقد کردینے میں کوئی تکلف نہیں ہوئی
تقریبا ایک سال تک دونوں کا ساتھ رہا لیکن پھر تعلقات قائم نہ رہ سکے اور نوبت طلاق تک جا پہنچی چنانچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے طلاق دیدی
حرم نبوت میں آنا
عرب
میں ایک جاہلیت کی رسم تھی کہ جسے متبنی(منہ بولی بیٹا) بنایا جاتا تھا اسے
حقیقی بیٹا ہی تصور کیا جاتا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متبنی کی
مطلقہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کرکے اس جاہلانہ رسم کا قلعہ قمع کیا اور
حضرت زینب رضی اللہ عنیہا کی اس میں حوصلہ افزائی بھی فرمائی
حلیہ
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کوتاہ قامت لیکن خوبصورت اور موزوں اندام تھیں
(زرقانی ج ۳ص۲۸۳)
فضل وکمال
روایتیں کم کرتی تھیں کتب حدیث میں ان سے صرف گیارہ روایتیں منقول ہیں راویوں میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، زینب بنت ابی سلمہرضی اللہ عنہا، محمد بن عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ (برادرزادہ) کلثوم بنت طلق داخل ہیں
اخلاق
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضرت زینب نیک خو،روزہ دار،ونماز گذارتھیں(زرقانی بحوالہ ابن اسد)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کوئی عورتزینب رضی اللہ عنہا سےزیادہ دیندار،پرہیزگار،زیادہ راست گفتاع،زیادہ فیاض،مخیر اور خداکیرضاجوئی میں زیادہ سرگرم نہیں دیکھی
فقط مزاج میں زراتیزی تھی جس پر ان کو بہت جلد ندامت بھی ہوتی تھی
(مسلم ج۲ ص ۳۳۵)
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا زہد وتقوی اور تورع میں یہ حال تھا کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی گائی اور اس تہمت میں خود حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی بھن حمنہ شریک تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اخلاقی حالت دریافت کی تو انھوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا
ماعلمت الاخیرا مجھ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھلائی کے سوا کسی چیز کا علم نہیں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کے اس صدق وقرار حق کا اعتراف کرنا پڑا
عبادت میں نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ مصروف رہتی تھیں ایک مرتبہ مہاجرین پر کچھ مال تقسیم کررہے تھے حضرت زینب رضی اللہ عنہا اس معاملے میں کچھ بول اٹھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ڈانٹا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان سے درگذرکرو یہ اواہ ہیں ( یعنی خشوع خضوع اورتواضع واتقوی والی ہیں)
(اصابہ ج ۸ص ۹۳)
وفات
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن سے فرمایا تھا
تم میں مجھ سے جلد وہ ملے گی جس کا ہاتھ لمبا ہو گا
یہ استعارۃ فیاضی کی طرف اشارہ تھا لیکن ازواج مطہرات اس کو حقیقت سمجھیں۔ چنانچہ باہم اپنے ہاتھوں کو ناپا کرتی تھیں حضرت زینب رضی اللہ عنہا فیاضی وسخاوت کی بنا پر اس پیشن گوئی کا مصداق ثابت ہوئیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت جو نو بیویاں چھوڑیں تھیں ان میں سب سے پہلے ان ہی کی وفات ہوئی
اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے سن ھ ۲۰ میں وفات پائی اور۵۳ سال کی عمرعزیزپائی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی
0 comments:
Post a Comment