احادیث میں ایک واقعے کا ذکر
احادیث میں ایک واقعے کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ ایک شخص نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے
نمازمیں رکوع سے سے اٹھتے ہوئے 'ربنالک الحمد(پروردگار ، حمد تیرے ہی لیے
ہے)'کے بعد 'حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ( بہت زیادہ حمد، پاکیزہ اور بڑ
یبابرکت) 'کے الفاظ کا اضافہ کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے الفاظ پر یہ
تبصرہ کیا کہ میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کودیکھا ہے کہ ان الفاظ کو لکھنے
کےلیے وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہ واقعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ زندہ عبادت خدا کے ہاں کیسے مقبول
ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں عبادات ایک رسمی چیز بن کر رہ گئی ہیں ، لیکن درحقیقت
یہخدا کے ساتھ ایک زندہ تعلق پیدا کر لینے کا نام ہے ۔
یہ تعلق تقاضا
کرتاہے کہ انسان مقررہ اعمال و اذکارادا کرنے اور ممنوعات سے رکنے کے
علاوہذہنی سطح پر بھی خدا کے ساتھ ایک شعوری رابطہ پیدا کرے ۔ جیسے ہی یہ
رابطہپیدا ہوتا ہے ، یہ زندہ کیفیات، احساسات، اذکار اور اعمال میں ڈھل
جاتا ہے۔یہ کبھی آنسوؤں کی شکل میں بہہ نکلتا ہے ، کبھی خدا کی عظمت اور
کبریائیکے نئے پہلو دریافت کر لیتا ہے اور کبھی اس کی ثناو تمجید اور تسبیح
وتعریف کے نئے اسالیب میں ڈھل جاتا ہے ۔
مگربدقسمتی سے جہاں نماز رٹے رٹائے الفاظ کا وہ مجموعہ ہو جن کے معنی نماز
پڑھنے والے کو خود معلوم نہ ہوں ، وہاں پر نمازی اپنی طرف سے حمد و تسبیح
کاکوئی اضافی جملہ کیسے کہہ سکے گا؟جہاں نماز بے دلی کے ساتھ کی جانے
والیاٹھ بیٹھ کا نام ہو وہاں خدا کے حضور آنسوؤں کا نذرانہ کون پیش کرے
گا؟جہاں لوگ نماز کے اندر خدا کو یاد نہیں کرتے وہاں نماز سے باہر خدا کو
یادرکھنے کی زحمت کون گوارا کرے گا؟ ایسے میں اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ
ہمارینماز کو لینے کے لیے فرشتے آپس میں مسابقت کریں تو ہمیں اپنی نمازوں
میںایمانی زندگی پیدا کرنی ہو گی۔
0 comments:
Post a Comment