Saturday, 20 April 2013

Self Respected and Contentment

Posted by Unknown on 07:57 with No comments
 خودداری اور قناعت
دفتر آنے کے لئے رکشے کی تلاش میں کھڑا تھا کہ ایک سفید داڑھی اور بالوں والے بابا جی رکشہ لے کر آ گئے۔۔۔ بابا جی کی عمر کوئی پینسٹھ اور ستر سال کے درمیان ہو گی۔۔ سفید شلوار قمیض مٹی پڑ پڑ کے خاکی ہو گئی ہے۔۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی دھبہ یا داغ نظر آئے۔۔۔ چہرے پر سنجیدگی، اطمنان اور دبدبہ ہے،جو مخاظب کو عزت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔۔میرا دل چاہا کہ ان سے باتیں کروں ، میں نے پوچھا کہ بابا جی آپ دن میں کتنا کما لیتے ہیں
بابا جی بولے الحمداللہ روزانہ پانچ سات سو کما لیتا ہوں۔ اللہ کا کرم ہے ان پیسوں سے میرا اور میری بیوی کا بہت اچھا گزارا ہو جاتا ہے۔ ذمہ داری ہے نہیں اس لئے رکشہ چلا کر اپنے آپ کو مصروف بھی رکھتا ہوں۔۔
میں نے پوچھا کیا آپ کی اولاد نہیں؟
بولے ماشاء اللہ دو بیٹے ہیں اور دونوں اپنی جگہ خوش اور آباد ہیں۔۔
میں نے کہا تو پھر آپ گھر آرام وغیرہ کریں ماشاء اللہ بیٹے اتنا تو کما ہی لیتے ہونگے کہ آپ کو کام کی ضرورت نا پڑے؟
بابا جی بولے : نہیں سر ساری زندگی ان کو کھلایا ،پلایا اور پڑھایا ہے۔۔ سب کچھ محبت میں کیا ہے ۔۔ محبت کا معاوضہ نہیں لیا جاتا ۔۔۔ اور مجھے بھی یہ اچھا نہیں لگتا کے ان سے پیسے وغیرہ لو ں ویسے بھی اب ان کے اپنے خاندان ہیں وہ اپنے خاندان کی ضروریات سہی طریقے سے پوری کرین اسی میں ہم بوڑھا بوڑھی کی خوشی ہے۔۔۔
میں نے پوچھا آپ کہیں بعیت ہیں؟
مسکرائے اور بولے: نہیں۔۔۔ بس نماز باقاعدگی سے پڑھتا ہوں ،کوشش کرتا ہوں کسی کو مجھ سے نقصان نا پہنچے۔۔۔ اگر میرا نقصان ہو جائے تو اپنی غلطیون کی طرف دیکھتا ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کے مجھے زندگی سمجھنے کا ایک اور موقع دیا۔۔۔
سر زندگی میں کبھی حرام کا ایک نوالہ نہیں کھا یا اور نا ہی گھر والوں کو کھلایا ہے۔۔ محنت کرتا ہوں اور حلال کماتا ہوں کبھی کسی سواری سے حق سے زیادہ پیسے نہیں مانگے۔۔۔ اسی لئے ۔۔۔ کبھی ایک آدھ گھنٹے سے زیادہ خالی بھی بیٹھنا نہیں پڑا۔۔۔ ابا جی کسان تھے۔۔۔ اللہ والے تھے ۔۔۔ انھوں نے رب سے باتیں کرنے کی عادت ڈلوائی۔۔۔
وہ کہتے تھے اپنا غم اور مشکلات صرف اللہ کو بتایا کرو۔۔۔۔ اس یقین کے ساتھ، کہ وہ تمھیں جواب بھی دے گا اور تمھاری تکلیف بھی دور کرے گا۔۔
میں نے پوچھا ماشاء اللہ آپ تو زندگی سے بہت مطمئن اور خوش ہیں ، اس خوشی اور اطمنان کا راز کیا ہے؟
بابا جی بولے : سر اس دنیا میں خوشیاں بانٹیں اور ہر ایک کو اپنی خوشی میں شریک کریں لیکن اپنے غم ،سوائے اللہ کے کسی کو نا بتائیں ۔۔ ہاں دوسرون کی غمی میں ضرور شریک ہوں۔۔۔ اپنےغم اور مشکلات صرف اللہ کو بتائیں ۔۔۔ وہ سب کچھ جانتا ہے ۔۔۔ مگر وہ اپنے بندے کے اس فعل کو پسند کرتا ہے۔۔۔ جب اسکا بندا ،اسے اپنا درد بتاتا ہے اور پھر اس درد کو دور کرنے کی فریاد کرتا ہے ۔۔۔۔ جب بندا ایسا کرتا ہے تو اللہ سوہنے کی رحمت موج مارتی ہے اور بندے کی کشتی پار لگ جاتی ہے۔۔۔
میں نے پوچھا: بابا جی کتنا پڑھے ہوئے ہیں باتیں تو آپ بہت پڑھی لکھی کر رہے ہیں؟
بابا جی بولے : سر میں چھ جماعتیں پڑھا ہوں۔۔۔ لیکن دنیا خود بھی تعلیم دیتی ہے بس بندے کو ارد گرد دھیان رکھنا ہوتا ہے اور پھر غور و فکر کرنی ہوتی ہے۔۔۔
میں سوچ میں پر گیا کہ اس بوڑھے شخص میں کتنی خود داری اور قناعت ہے۔۔ کتنا خوش قسمت ہے کہ اتنے کم پر خوش اور صابر ہے ۔۔۔ اللہ کی کتنی رحمت ہے اس پر، اللہ نے اسے دنیا سے توقعات رکھنےسے بچا رکھا ہے اور اسے بے نیاز کر دیا ہے۔۔
شاید رکشے والے بوڑھے بابا کی باتوں کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بابا محنت کر کے روزی کماتا ہے۔۔ وہ محنت کرتا ہے،توکل کرتا ہے اور راضی بالرضا رہتا ہے۔۔۔

0 comments:

Post a Comment