شاہوں کی طرح تھے نہ امیروں کی طرح تھے،
ہم شہر محبت کے فقیروں کی طرح تھے ،
دریاؤں میں ہوتے تھے جزیروں کی طرح ہم،
صحراؤں میں پانی کے ذخیروں کی طرح تھے،
افسوس کے سمجھا نہ ہمیں اہلِ نظر نے،
ہم وقت کی زنبیل میں ہیروں کی طرح تھے،
ہائے غم دل یوں بنا زنجیـر انا کـی،
آزاد بھی تھے ہم تو اسیروں کی طرح تھے،
ہم شہر محبت کے فقیروں کی طرح تھے ،
دریاؤں میں ہوتے تھے جزیروں کی طرح ہم،
صحراؤں میں پانی کے ذخیروں کی طرح تھے،
افسوس کے سمجھا نہ ہمیں اہلِ نظر نے،
ہم وقت کی زنبیل میں ہیروں کی طرح تھے،
ہائے غم دل یوں بنا زنجیـر انا کـی،
آزاد بھی تھے ہم تو اسیروں کی طرح تھے،
حیرت ہے کہ وہ لـوگ بھی اب چھـوڑ چلے ہیں،
جو شفقت کی ہتھیلی پہ لکیروں کی طرح تھے،
سوچی نہ بری سوچ کبھی ان کے لئے بھی،
پیوستہ میرے دل میں جو تیروں کی طرح تھے،
پیوستہ میرے دل میں جو تیروں کی طرح تھے،
وہ شعر میرے آج میرا جُرم بنے ہیں،
کل تک جو محبت کے سفیروں کی طرح تھے،
اب رہ گئے ہم صرف روایت کـی صـورت،
جب تھے تو ہمہ رنگ نظیروں کی طرح تھے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
Post a Comment