سوچ کا انداز
امجد
کو میرے محلے میں آئے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے لیکن نہ جانے کیوں اس کے
بارے میں یہ تاثر عام ہوا کہ وہ ایک خراب معاش کا لڑکا ہے- شاید اس کی ایک
وجہ تو یہ تھی کہ وہ محلے کے کسی بھی فرد سے سلام دعا نہ رکھتا تھا بلکہ
اکثر ساتھ کی گلی کے ایک دو خراب شہرت رکھنے والوں لڑکوں کے ساتھ نظر آتا
تھا دوسرا یہ کہ اس کے چہرے پر ایک گہرے زخم کا نشان تھا جیسے کسی چاقو
وغیرہ کے لگنے سے بن گیا ہو اس نشان کی وجہ سے اس
کا چہرہ کرخت اور مجرمانہ سا نظر آتا تھا- مجھ سمیت میرے محلے کےسب دوست
جو تعلیمی اور اخلاقی اعتبار سے اپنے آپ کو بہت بلند سمجھتے تھے، اس سے کسی
قسم کے تعلق سے گریز کرتے- محلے کے بزرگ بھی اس کو اچھی نظر سے نہ دیکھتے
اور ہمیں اس سے دور رہنے کی تلقین کیا کرتے-
ایک شام جب میں عصر کی نماز پڑھ کر مسجد سے واپس گھر کی طرف آرہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک جگہ بہت رش ہے اور بہت سے لوگوں کی بلند آواز میں بولنے سے ایک شور سا مچا ہوا ہے کوئی چیخ رہا ہے کہ "رسّی لاؤ" تو کوئی کہہ رہا ہے " زندہ ہے زندہ ہے" - مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا معاملہ ہے اسلئے میں تیز قدم اٹھا کر جلد سے جلد بھیڑ میں گھس گیا تو دیکھا کہ ایک تین چار سال کا بچہ گٹر کا ڈھکن نہ ہونے کے سبب گٹر میں گرگیا ہے اوروہ پانی میں غوطے کھا رہا ہے- یہ گٹر تقریبا" نو فٹ گہرا تھا اسلئے بچے تک رسائی کسی طرح ممکن نہ ہو پا رہی تھی- ہر کوئی اپنا اپنا مشورہ دے رہا تھا لیکن کوئی تدبیر کارگر ثابت نہ ہو پارہی تھی -ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس بچے کا بچنا اب ممکن نہیں کیونکہ بچہ پانی میں تقریبا" ڈوب چکا تھا،ایک ایک لمحہ قیمتی تھا، خطرہ تھا کہ وہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ کہیں بہہ نہ جائے کہ اچانک میں نے دیکھا کہ امجد بھی وہاں آپہنوچا- جیسے ہی اسے صورتحال کا علم ہوا اس نے فورا" لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ میری ٹانگیں پکڑلیں میں اس کو نکالتا ہوں اور وہ آنا" فانا" منھ کے بل گٹر کے اندر لٹک گیا اور لوگوں نے اس کو پاؤں سے پکڑ لیا حتّی کہ اس کا پورا جسم گٹر کے اندر اتر گیا - لوگوں نے مضبوطی سے اس کو پاؤں سے تھام رکھا تھا- تھوڑی جدوجہد کے بعد بالاخر اس نے بچے کواپنے ہاتھ سے پکڑ لیا اور پھر لوگوں نے آہستہ آہستہ اس کو اوپر کھینچ لیا- جب لوگوں کو زندہ سلامت بچہ اس کے ہاتھوں میں نظر آیا تو وہ مارے خوشی کے چیخنے لگے اور داد اور تحسین کے جملے فضا میں بلند ہونے لگے - اس سارے منظر کو دیکھ کر میں بھی خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات لئے کھڑا تھا اور پھر میں نے بڑھ کر امجد کو گلے سے لگالیا- یقینا" میری بھی آنکھیں وہاں موجود اور بہت سے لوگوں کی طرح بھیگ گئی تھیں-لیکن نہ جانے کیوں آج میں اپنے آپ سے بہت شرمندہ تھا کیونکہ میں اور میرے وہ دوست جو انسانیت کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے صرف مشورہ دیتے رہ گئے لیکن وہ جس کو ہم نے ایک بدمعاش اور محلے میں کسی قسم کے تعّلق کے قابل نہ سمجھا اس نےکسی غیر بچّے کیلئے اپنی جان کو خطرے میں ڈالدیا -یہ ایک ایسا سبق تھا کہ اس نے میری سوچ کا انداز ہی بدل دیا۔
ایک شام جب میں عصر کی نماز پڑھ کر مسجد سے واپس گھر کی طرف آرہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک جگہ بہت رش ہے اور بہت سے لوگوں کی بلند آواز میں بولنے سے ایک شور سا مچا ہوا ہے کوئی چیخ رہا ہے کہ "رسّی لاؤ" تو کوئی کہہ رہا ہے " زندہ ہے زندہ ہے" - مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا معاملہ ہے اسلئے میں تیز قدم اٹھا کر جلد سے جلد بھیڑ میں گھس گیا تو دیکھا کہ ایک تین چار سال کا بچہ گٹر کا ڈھکن نہ ہونے کے سبب گٹر میں گرگیا ہے اوروہ پانی میں غوطے کھا رہا ہے- یہ گٹر تقریبا" نو فٹ گہرا تھا اسلئے بچے تک رسائی کسی طرح ممکن نہ ہو پا رہی تھی- ہر کوئی اپنا اپنا مشورہ دے رہا تھا لیکن کوئی تدبیر کارگر ثابت نہ ہو پارہی تھی -ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس بچے کا بچنا اب ممکن نہیں کیونکہ بچہ پانی میں تقریبا" ڈوب چکا تھا،ایک ایک لمحہ قیمتی تھا، خطرہ تھا کہ وہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ کہیں بہہ نہ جائے کہ اچانک میں نے دیکھا کہ امجد بھی وہاں آپہنوچا- جیسے ہی اسے صورتحال کا علم ہوا اس نے فورا" لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ میری ٹانگیں پکڑلیں میں اس کو نکالتا ہوں اور وہ آنا" فانا" منھ کے بل گٹر کے اندر لٹک گیا اور لوگوں نے اس کو پاؤں سے پکڑ لیا حتّی کہ اس کا پورا جسم گٹر کے اندر اتر گیا - لوگوں نے مضبوطی سے اس کو پاؤں سے تھام رکھا تھا- تھوڑی جدوجہد کے بعد بالاخر اس نے بچے کواپنے ہاتھ سے پکڑ لیا اور پھر لوگوں نے آہستہ آہستہ اس کو اوپر کھینچ لیا- جب لوگوں کو زندہ سلامت بچہ اس کے ہاتھوں میں نظر آیا تو وہ مارے خوشی کے چیخنے لگے اور داد اور تحسین کے جملے فضا میں بلند ہونے لگے - اس سارے منظر کو دیکھ کر میں بھی خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات لئے کھڑا تھا اور پھر میں نے بڑھ کر امجد کو گلے سے لگالیا- یقینا" میری بھی آنکھیں وہاں موجود اور بہت سے لوگوں کی طرح بھیگ گئی تھیں-لیکن نہ جانے کیوں آج میں اپنے آپ سے بہت شرمندہ تھا کیونکہ میں اور میرے وہ دوست جو انسانیت کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے صرف مشورہ دیتے رہ گئے لیکن وہ جس کو ہم نے ایک بدمعاش اور محلے میں کسی قسم کے تعّلق کے قابل نہ سمجھا اس نےکسی غیر بچّے کیلئے اپنی جان کو خطرے میں ڈالدیا -یہ ایک ایسا سبق تھا کہ اس نے میری سوچ کا انداز ہی بدل دیا۔
0 comments:
Post a Comment