ہم اور ہمارا مذہب
ایک
طرف ہم لوگ اپنے دین کو ساری دنیا کے ادیان سے ہر لحاظ سے بہترین اور قابل
عمل سمجھتے ہیں ،فخر سے نعرے لگاتے ہیں کہ اسلام از دی بیسٹ اور یہ خواہش
بھی رکھتے ہیں کہ ساری دنیا کے لوگ اسلام قبول کرلیں دوسری طرف اس حقیقت سے
نظریں چرائے بیٹھے ہیں کہ کوئی دین اور اسکی دعوتی تحریک محض اپنے عقائد
وافکار او ر مخصوص آئیڈیالوجی کی بنیاد پر دلوں کو نہیں جیت سکتی، غیروں کے
دلوں پر اثر اس دین کے ماننے والے فرد کا کردار، اخلاق، معاشرتی زندگی کرے گی۔
ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے اکابرین اور آبا کے پاس اگرچہ اس قدر میڈیائی اسباب و وسائل نہ تھے لیکن پھر بھی لوگ انکے آگے بچھتے چلے گئے اور اسلام پوری دنیا پر پھیلتا چلا گیا اور اسلامی تعلیمات نے دلوں کو جیت لیا اسکی وجہ یہ تھی کہ اس وقت اسلامی دعوتی عمل کی بنیاد مسلمان کی زندگی پر تھی جس میں اسلام اپنی تمام تعلیمات کے ساتھ جلوہ افروز نظر آتا تھا، اور انکی انفرادی اور اجتماعی اصلاح پہلو بہ پہلو چل رہی ہوتی تھی۔ مبلغ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک فرد سے محنت شروع کرکے اپنے نمائندوں کو اپنے عمل سے یہ سمجھایا تھا کہ معاشرہ کی اصلاح فرد کی اصلاح کے بغیر مفید اور دیرپا نہیں ہوتی ، اس لیے انکے ہاں اصلاح فرد سے شروع ہوتی اور پھر انکا تربیت یافتہ ایک تنہا فرد شہروں، بستیوں میں انقلاب برپا کردیتا ۔ ۔ ۔ ماضی کا دنیادار مسلمان تاجر اور بکریاں چرانے والا بھی ہزاروں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن جاتا ۔
ہمارے ہاں آج فرد کی اصلاح بے توجہی کا شکار ہے، لوگ کہتے ہیں میرے یا ایک بندے کے ٹھیک ہونے سے کیا ہوجائے گا اس لیے وسائل کی کثرت کے باوجود ہمارے معاشرے میں فساد ہے اور دعوتی عمل میں تاثیر نہیں، ہم لوگ غیر مسلموں کو دین کےقریب لانے کے بجائے انکی اس دین حق سے دوری کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔ حقیقت میں ہم نے کبھی اپنی اصلاح کی کوشش ہی نہیں کی، ہر آدمی اچھے عمل کی ابتدا دوسرے سے کروانا چاہتا ہے۔ ۔ ۔ ۔اگر آج ہم سے ہر بندہ اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرلے اور یہ عہد کرلے کہ میرے سے آئندہ ان شااللہ غلط اور خلاف اصول و قانون کام نہیں ہو گا تو ایک ٹائم آئے گا کہ ہمارا معاشرہ ایک آئیڈیل معاشرہ بن جائےگا۔ ۔ ۔ فی الحال ہم ہر دن میں دسیوں گناہوں سے تو بچ جائیں گے یا کم از کم معاشرے سے ایک غلط آدمی کی تو کمی ہوجائے گی۔
ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے اکابرین اور آبا کے پاس اگرچہ اس قدر میڈیائی اسباب و وسائل نہ تھے لیکن پھر بھی لوگ انکے آگے بچھتے چلے گئے اور اسلام پوری دنیا پر پھیلتا چلا گیا اور اسلامی تعلیمات نے دلوں کو جیت لیا اسکی وجہ یہ تھی کہ اس وقت اسلامی دعوتی عمل کی بنیاد مسلمان کی زندگی پر تھی جس میں اسلام اپنی تمام تعلیمات کے ساتھ جلوہ افروز نظر آتا تھا، اور انکی انفرادی اور اجتماعی اصلاح پہلو بہ پہلو چل رہی ہوتی تھی۔ مبلغ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک فرد سے محنت شروع کرکے اپنے نمائندوں کو اپنے عمل سے یہ سمجھایا تھا کہ معاشرہ کی اصلاح فرد کی اصلاح کے بغیر مفید اور دیرپا نہیں ہوتی ، اس لیے انکے ہاں اصلاح فرد سے شروع ہوتی اور پھر انکا تربیت یافتہ ایک تنہا فرد شہروں، بستیوں میں انقلاب برپا کردیتا ۔ ۔ ۔ ماضی کا دنیادار مسلمان تاجر اور بکریاں چرانے والا بھی ہزاروں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن جاتا ۔
ہمارے ہاں آج فرد کی اصلاح بے توجہی کا شکار ہے، لوگ کہتے ہیں میرے یا ایک بندے کے ٹھیک ہونے سے کیا ہوجائے گا اس لیے وسائل کی کثرت کے باوجود ہمارے معاشرے میں فساد ہے اور دعوتی عمل میں تاثیر نہیں، ہم لوگ غیر مسلموں کو دین کےقریب لانے کے بجائے انکی اس دین حق سے دوری کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔ حقیقت میں ہم نے کبھی اپنی اصلاح کی کوشش ہی نہیں کی، ہر آدمی اچھے عمل کی ابتدا دوسرے سے کروانا چاہتا ہے۔ ۔ ۔ ۔اگر آج ہم سے ہر بندہ اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرلے اور یہ عہد کرلے کہ میرے سے آئندہ ان شااللہ غلط اور خلاف اصول و قانون کام نہیں ہو گا تو ایک ٹائم آئے گا کہ ہمارا معاشرہ ایک آئیڈیل معاشرہ بن جائےگا۔ ۔ ۔ فی الحال ہم ہر دن میں دسیوں گناہوں سے تو بچ جائیں گے یا کم از کم معاشرے سے ایک غلط آدمی کی تو کمی ہوجائے گی۔
0 comments:
Post a Comment