Sunday, 21 April 2013

شہروں کو قبرستان بنانا فرشتوں کا نہیں انسانوں کا کام ہے

وہ بوڑھی عورت اپنے بیمار نواسے کو لےکر ہسپتال کے برامدے میں بیٹھی کب سے ڈاکٹر کا انتظار کر رہی تھی کہ کب ڈاکٹر صاحب میٹنگ سے فارغ ہوں اور کب وہ اپنے نواسے کا علاج کروائے لیکن دو تین گھنٹے کے انتظار کے بعد بھی اس کو ڈاکٹر کے کمرے تک جانے کی اجازت نہ ملی اور اس کے نواسے کی حالت لمحہ بہ لمحہ خراب ہوتی گئی اور اسے خون کی قے شروع ہوگئی
کچھ دیر بعد وہاں صفائی کا وقت ہو گیا، ہسپتال کے سارے خاکروب جھاڑو اور ٹاکیاں لے کر نکل آے-
ایک جمعدار نے مور کی دم جیسا جھاڑو ہوا میں لہرایا اور پاس کھڑے ٹاکی برادر سویپر سے بولا ” یہ بچہ مرتا ہے اور نہ ہی یہ مائی یہاں سے جاتی ہے، دیکھو خون سے سارا فرش گندا کر دیا- اگر صاحب راونڈ پر آگئے تو بے عزتی تو ہماری ہی ہوگی نا-”ٹاکی بردار نے اثبات میں سر ہلایا اور بولا، “چلو اس مائی کی چھٹی کریں-” دونوں چلتے ہوئے آخری سانسیں لیتے بچے کے قریب آے اور بوڑھی نانی سے مخاطب ہو کر بولے ” بڑی اماں تمہیں کتنی بار سمجھایا ڈاکٹر صاحب میٹنگ میں ہیں تم اسے کسی پرائیویٹ ہسپتال میں کیوں نہیں لے جاتی ، اس کی جان کی دشمن کیوں بنی ہو-” بچے نے خالی آنکھوں سے اوپر کھڑے خاکروبوں کو دیکھا اور سوچا کیا موت کے فرشتے ایسے ہوتے ہیں، بھدے ، بدبو دار اور گندے…. نہیں اس کے اندر سے آواز آئی، فرشتے تو نور ہی نور ہوتے ہیں- ان کے پروں سے بھینی بھینی خوشبوئیں نکلتی ہیں اور ان کے لبادوں سے نرم اور ٹھنڈی روشنیاں پھوٹتی ہیں تو پھر وہ کہاں ہیں، اس نے تھک کر آنکھیں بند کر لیں اور ساتھ ہی کانوں میں آوازوں کا ہجوم ٹھٹھک کر روک گیا، اس نے ایک لمبی ہچکی لی اور ہسپتال کے کوریڈور میں گونجتی ہوئی چیخ کے ساتھ ساری روشنیاں بجھ گئیں-اب امن ہی امن تھا-
سکون ہی سکون اور بھر پرائویٹ ایمبولینس کے ڈرائیور نے اپنے ساتھی سے پوچھا ” بڑھیا کے کھیسے (جیب) میں کچھ ہے بھی یا نہیں -” چھوٹے نے ٹاکی سے ہاتھ صاف کے اور بولا ” استاد اگر اس کے پاس پیسے ہوتے تو وہ بچہ کسی ڈاکٹر کو نہ دکھا دیتی، بیچارہ یوں ہسپتال کے فرش پر تو نہ مرتا-” “ہوں -” استاد نے نفرت سے گردن کو جھٹکا دیا اور گاڑی سٹارٹ کر کے وہاں سے فرار ہو گیا- اور وہاں لاش پر مجمع لگا تھا، نادار ،غریب اور بےبس لوگوں کا مجمع ، سب تاسف سے ہاتھ مل رہے تھے- سب قاتل ڈرائیوروں کو گالیاں دے رہے تھے- سب دبے دبے لفظوں میں ہسپتال کی انتظامیہ کو کوس رہے تھے- لیکن وہاں لاش کو گھر پہنچنے والا کوئی نہیں تھا- نہ بوڑھی نانی کے بازوں میں اتنی طاقت تھی کہ وہ حسین کی لاش کو اٹھا کر ملتان کی تنگ گلیوں میں راستہ تلاش کر سکتی- مکھیوں نے سوچا چلو ہم ہی اس ننھی لاش کو کفن دیں کہ کفن کے بغیر لاشیں برہنہ ہوتی ہیں- اور ذرا دور سٹور میں درجنوں نئے سٹریچر پڑے تھے لیکن سٹور کیپر کو انھیں باہر نکالنے کی اجازت نہ تھی- ایمرجنسی میں نصف درجن بیڈ خالی تھے لیکن الاٹ کرنے والا کلرک کھانا کھانے گیا تھا- فریج میں خون کی بوتلیں اور زندگی بچانے والے سینکڑوں انجکشن تھے لیکن ڈاکٹر صاحب میٹنگ میں تھے……. لیکن مکھیوں کے کفن میں چھپی لاش چیخ چیخ کر کہ رہی تھی ، جہاں احساس نہیں ہوتا وہاں انسان نہیں گدھ بستے ہیں اور گِدھوں کے شہر میں انسانوں کو مر ہی جانا چاہیے- 
مجھے یقین ہے حساب کے فرشتے جب یہ ننھی سی لاش الله تعالیٰ کے حضور پیش کریں گے تو خالق کائنات کا دامن تھام کر ضرور کہیں گے -” یا باری تعالیٰ آپ اجازت دیں تو مردہ ضمیروں کے اس شہر کو قبرستان بنا دیں-” تو باری تعالیٰ مسکرا کر کہیں گے- ” نہیں، شہروں کو قبرستان بنانا فرشتوں کا نہیں انسانوں کا کام ہے

0 comments:

Post a Comment