Wednesday, 10 April 2013

What Can I Say?

Posted by Unknown on 23:49 with No comments
میں کیا کہہ سکتی ہوں؟

جس رات کو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے غارِ ثور میں تشریف فرما ہوئے، مشرکین ساری رات کاشانہ نبوّت کے گرد گھیرا ڈال کر اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کب باہر تشریف لائیں اور وہ اپنا ناپاک منصوبہ پورا کریں۔ لیکن ان بدبختوں کو معلوم نہیں تھا کہ اللہ نے رات کو انکی آنکھیں ہی الٹی کر دی تھیں اور سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم سورہ یٰسین کی ابتدائی آیات پڑھتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل کر مکہ معظمہ کو الوداع کہہ چکے تھے۔ سپیدہ سحر نمودار ہوا اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر اقدس پر حضرت علی بن طالب رضی اللہ عنہ کو استراحت فرما دیکھا تو سر پیٹ کر رہ گئے۔ساری بات ان کی سمجھ میں آگئی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ ان کا سرخیل ابوجہل اپنے منصوبے کی ناکامی پر غم و غصہ سے دیوانہ ہو گیا اور سیدھا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچ کرزور زور سے دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔
اندر سے ایک نوجوان خاتون باہر آئیں۔
ابوجہل نے کڑک کر پوچھا۔: ’’لڑکی تیرا باپ کدھر ہے؟‘‘
خاتون نے جواب دیا: ’’میں کیا بتا سکتی ہوں۔‘‘
یہ سن کر ابوجہل نے خاتون کے چہرے پر اس زور کا تھپڑ مارا کہ ان کے کان کی بالی ٹوٹ کر دور جا گری۔ مظلوم خاتون بڑے صبر اور خاموشی کے ساتھ گھر کے اندر چلی گئیں اور ابوجہل بکتا جھکتا وہاں سے دفع ہو گیا۔
یہ خاتون جنہوں نے فرعونِ قریش ابوجہل کے قہروغضب کی مطلق پرواہ نہ کی اور ہجرت کے پر خطر راز کو اپنے نہاں خانہ دل میں محفوظ رکھا سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے یار غار صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی بڑی صاحبزادی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا تھیں۔
اللہ کی کروڑوں رحمتیں ہوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر

0 comments:

Post a Comment