حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سخت روی
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسند خلافت ہوئے اور تھوڑے ہی دنوں
میں ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کو ملک عظیم بنا دیا، جیسا کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی بذریعہ وحی کے اطلاع دی گئی تھی
مزاج میں سختی بہت تھی غصہ جلدی آ جاتا تھا بالکل حضرت موسی علیہ السلام کی سی کیفیت تھی، مگر اس کے ساتھ دو صفتیں عجیب و غریب تھیں اول یہ کہ اپنی ذات کے لئے کبھی غصہ نہ آتا تھا، دوم یہ کہ عین اشتعال کے عالم کوئی شخص اللہ تعالی کا نام آپ کے سامنے لیتا یا قرآن پاک کی کوئی آیت پڑھ لیتا تو فورا غصہ رفع ہو جاتا گویا تھا ہی نہیں ۔ ۔ ۔
جب آپ خلیفہ ہوئے تو لوگ آپ کی سخت گیری سے اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ گھروں سے باہر نکل کر بیٹھنا چھوڑ دیا یہ حالت دیکھ کر آپ نے خطبہ پڑھا اور اس خطبہ میں فرمایا کہ :
"اے لوگو! میری سختی اس وقت تک تھی جب تک کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور خضرت صدیق رض کی نرمیوں اور مہربانیوں سے فیض یاب تھے، میری سختی ان کی نرمی کے ساتھ ملکر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی مگر اب میں تمہارا والی ہوں، اب میں تم پر سختی نہ کرونگا اب میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی"
خلیفہ ہوتے ہی عام اجازت دی کہ میری جو بات قابل اعتراض ہو سر دربار مجھے ٹوک دیا جائے آپ کی طرف سے اعلان عام دیا گیا کہ احب الناس الی من رفع الی عیوبی یعنی سب سے زیادہ میں اس شخص کو پسند کرونگا جو میرے عیبوں پر مجھے اطلاع دے۔ ۔ ۔۔
خلیفہ ہونے کے بعد منبر پر جو گئے تو منبر کے اس زینہ پر بیٹھے جس پر حضرت صدیق رض کے پاؤں رہتے تھے، لوگوں نے کہا کہ اوپر بیٹھیئے تو فرمایا کہ میرے لئے یہی کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاؤں رہتے تھے۔ ۔۔ ۔
(سیرت اسلامی ۔ اسلاف کے روشن کردار )
مزاج میں سختی بہت تھی غصہ جلدی آ جاتا تھا بالکل حضرت موسی علیہ السلام کی سی کیفیت تھی، مگر اس کے ساتھ دو صفتیں عجیب و غریب تھیں اول یہ کہ اپنی ذات کے لئے کبھی غصہ نہ آتا تھا، دوم یہ کہ عین اشتعال کے عالم کوئی شخص اللہ تعالی کا نام آپ کے سامنے لیتا یا قرآن پاک کی کوئی آیت پڑھ لیتا تو فورا غصہ رفع ہو جاتا گویا تھا ہی نہیں ۔ ۔ ۔
جب آپ خلیفہ ہوئے تو لوگ آپ کی سخت گیری سے اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ گھروں سے باہر نکل کر بیٹھنا چھوڑ دیا یہ حالت دیکھ کر آپ نے خطبہ پڑھا اور اس خطبہ میں فرمایا کہ :
"اے لوگو! میری سختی اس وقت تک تھی جب تک کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور خضرت صدیق رض کی نرمیوں اور مہربانیوں سے فیض یاب تھے، میری سختی ان کی نرمی کے ساتھ ملکر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی مگر اب میں تمہارا والی ہوں، اب میں تم پر سختی نہ کرونگا اب میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی"
خلیفہ ہوتے ہی عام اجازت دی کہ میری جو بات قابل اعتراض ہو سر دربار مجھے ٹوک دیا جائے آپ کی طرف سے اعلان عام دیا گیا کہ احب الناس الی من رفع الی عیوبی یعنی سب سے زیادہ میں اس شخص کو پسند کرونگا جو میرے عیبوں پر مجھے اطلاع دے۔ ۔ ۔۔
خلیفہ ہونے کے بعد منبر پر جو گئے تو منبر کے اس زینہ پر بیٹھے جس پر حضرت صدیق رض کے پاؤں رہتے تھے، لوگوں نے کہا کہ اوپر بیٹھیئے تو فرمایا کہ میرے لئے یہی کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاؤں رہتے تھے۔ ۔۔ ۔
(سیرت اسلامی ۔ اسلاف کے روشن کردار )
0 comments:
Post a Comment