Tuesday 7 May 2013

امریکی وزارت دفاع کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کی حکومت اور فوج نے سائبر جاسوسی کی مہم میں امریکی حکومت کے کمپیوٹرز کو نشانہ بنایا ہے۔
پینٹاگون کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کے سائبر حملوں کا اہم مقصد امریکی سفارتی، معاشی اور دفاعی شعبوں کی معلومات اکٹھی کرنا ہوتا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی وزارت دفاع نے براہ راست چین پر سائبر حملوں کا الزام عائد کیا ہے۔
چین ہمیشہ سے سائبر حملوں کے الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چین خود ایسے حملوں کے نشانے پر ہے۔
امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے ’سنہ 2012 میں دنیا بھر میں امریکی حکومت کے کمپیوٹر نظام میں رسائی کی کوشش کی گئی۔ ان میں سے کچھ حملوں کے پیچھے براہ راست چینی حکومت اور فوج تھی۔‘
پینٹاگون کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان سائبر حملوں کا اصل مقصد ایسی معلومات حاصل کرنا تھی جس سے ’چین کی دفاعی صنعت اور ٹیکنالوجی صنعت ۔۔۔ اور فوجی منصوبہ کاروں کو فائدہ پہنچ سکے‘۔
رپورٹ کے مطابق تہ تشویشناک اس لیے بھی ہے کہ ان معلومات کو حاصل کرنے کے لیے جو صلاحیت چاہیے وہ وہی ہیں جو کمپیوٹر نیٹ ورک پر حملے کرنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔‘
اگرچہ چین پر ان حملوں کے پیچھے ہونے کا شک بہت پہلے سے تھا لیکن یہ پہلی بار ہے کہ اس کو واضح الفاظ میں کہا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ ان کے ملک نے چین سے امریکہ پر ہونے والے سائبر حملوں کے بارے میں ’سختی سے بات‘ کی ہے۔
امریکی ٹی وی چینل اے بی سی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں براک اوباما نے کہا تھا کہ چین سے ہیکنگ کے تمام تو نہیں مگر کچھ واقعات کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔
امریکی خفیہ اداروں کے سربراہان نے سائبر حملوں کو دہشتگردی کی جگہ ملک کی سکیورٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔
انٹرویو میں اس خیال پر کہ امریکی قانون ساز امریکہ کے انفراسٹرکچر اور اداروں پر سائبر حملوں کو چین کی ’سائبر جنگ‘ قرار دیتے ہیں، امریکی صدر نے کہا تھا کہ ’سائبر جاسوسی اور سائبر حملوں اور ایک جنگ میں بہت فرق ہوتا ہے‘۔

0 comments:

Post a Comment