Friday 10 May 2013

بین الاقوامی جریدے فوربز کے مطابق تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے تیار کی جانے والی پلاسٹک کی پستول میں استعمال ہونے والے بلیو پرنٹ کو ایک لاکھ بار ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔
اس بلیو پرنٹ کو رواں ہفتے کے شروع میں انٹرنیٹ پر جاری کیا گیا تھا۔
پلاسٹک کی بندوق تیار کرنے والی ڈیفنس ڈسٹریبیوٹڈ نامی کمپنی کا کہنا ہے کہ انہیں بندوق میں دکھائی گئی دلچسپی پر حیرانگی ہوئی ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز پر اس کمپنی نے تھری ڈی پرنٹر سے تیار کی گئی دنیا کی پہلی بندوق کو کامیابی سے چلایا تھا۔
اس کمپنی کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ پر دستیاب بلیو پرنٹ کو زیادہ تر امریکہ میں ڈاؤن لوڈ کیا گیا اور اس کے علاوہ برازیل، سپین، جرمنی اور برطانیہ میں بھی ڈاؤن لوڈ کیا گیا۔
اس بلیو پرنٹ کو انٹرنیٹ پر فائلوں کے تبادلے کی ویب سائٹ پائرٹ بے پر بھی جاری کیا گیا ہے اور یہ ویب سائٹس میں تھری ڈی کے درجہ بندی میں سب سے مقبول فائل بن گئی ہے۔
دوسری جانب اس بندوق کی تیاری پر پابندی عائد کیے جانے کے مطالبات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
کیلیفورنیا سے سینیٹر لیلینڈ یے کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ تھری ڈی بندوقوں کی تیاری پر پابندی کے حوالے سے قانون منظور کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں قانونی سازی متعارف کرانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہوں تاکہ لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور بندوقوں کی تیاری کو روکا جا سکے، جو دھاتوں کا پتہ چلانے والے آلات میں نظر نہیں آتی ہیں اور بغیر کسی نگرانی کے تیار کی جا سکتی ہے۔‘
برطانیہ کی پولیس کے مطابق ہو سکتا ہے کہ بلیو پرنٹ ڈاؤن لوڈ کرنا غیرقانونی نہ ہو، لیکن بندوق رکھنا غیر قانونی ہے۔
برطانوی پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ’برطانیہ میں کسی قسم کی بھی بندوق تیار کرنے کے لیے بندوق کے ڈیلر کا لائسنس حاصل کرنا ضروری ہے‘۔
ڈیفنس ڈسٹری بیوٹڈ کمپنی کو اس بندوق کو تیار کرنے میں آٹھ ماہ کا عرصہ لگا تھا اور ای بے ویب سائٹ سے آٹھ ہزار ڈالر مالیت کا تھری ڈی پرنٹر خرید کر اس کے تیار کردہ مختلف پرزوں اور حصوں کو اے بی ایس پلاسٹک سے تیار کیا گیا ہے اور پھر اسے یکجا کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پلاسٹک کی بندوق میں صرف فائرنگ پن کو دھات سے تیار کیاگیا ہے۔
ڈیفنس ڈسٹری بیوٹڈ کمپنی کے سربراہ ولسن جو خود کو ’مخفی تخریب کار‘ کہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس ڈیزائن کو عام کرنے کا ان کا منصوبہ ’آزادی کے لیے‘ ہے۔
اس گن کو بنانے کے لیے ولسن کو مینوفیکچرنگ کا لائسنس دینے والے امریکی بیورو اے ٹی ایف سے لائسنس حاصل کرنا پڑا۔

0 comments:

Post a Comment