امام
ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کو بادشاہِ وقت خلیفہ منصور نے قید کرادیا تھا
اور دس کوڑے روزانہ ان کو لگواتاتھا‘ وجہ یہ تھی کہ بادشاہ وقت جو قانون
بناتا اور عوام پر اس کو نافذ کرتا تو لوگ امام صاحب سے آکر دریافت کرتے کہ
یہ قانون شریعت کے مطابق ہے یا نہیں؟اگر آپ فرماتے شریعت کے مطابق ہے
تولوگ اس قانون پر عمل کرتے‘ ورنہ عمل نہ کرتے‘
بادشاہ نے ایک محتسب بھی مقرر کیا کہ نافذ کردہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دیا کرے‘ چنانچہ وہ محتسب ایسے لوگوں کو سزا دینے لگا جو قانونِ شاہی کی خلاف ورزی کرتے‘ ایک مرتبہ وہ محتسب امام صاحبکے پاس آیا اور دریافت کیا کہ حضرت! میری توبہ کی بھی کوئی شکل ہے؟ امام صاحب نے فرمایا کہ بالکل پکی توبہ کرلو کہ آئندہ ایسا نہ کروں گا‘ اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں گے۔ اس نے توبہ کرلی‘ اس کے بعد بادشاہ نے ایک قانون نافذ کیا اور اس کو بلاکر کہا کہ ہم نے فلاں قانون نافذ کیا ہے‘ تم اپنے کام کے لئے تیار ہوجاؤ یعنی جو شخص ا س کے خلاف کرے اس کو سزا دو۔ اس نے کہا: میں اس کا جواب کل دوں گا‘ رات کوامام صاحب کے پاس آیا اور عرض کیا کہ: مجھے بادشاہ نے ایسا حکم دیا ہے‘ میں کیا کروں؟ مشورہ دیجئے! امام صاحب نے فرمایا: تمہارے امتحان کا وقت آیاہے کہ آیا تم نے پکی توبہ کی ہے یا کچی؟ اس پر اس نے کہا کہ اچھا! میں اس کام کے لئے ہرگز نہ جاؤں گا‘ چنانچہ صبح کو جاکر بادشاہ سے انکار کردیا کہ میں اس کام کے لئے تیار نہیں ہوں۔ بادشاہ نے تحقیق کرائی کہ دیکھو یہ رات کس کے پاس گیا تھا‘ معلوم ہوا کہ امام صاحب کے پاس گیا تھا اور ان سے مشورہ کرکے آیا ہے‘ اس پر بادشاہ نے کہا کہ اچھا! ہم یہاں کا قاضی امام ابوحنیفہ ہی کو بنائیں گے اور انہیں کے ذریعہ اپنے احکامات کا اعلان کرائیں گے ‘چنانچہ اس نے امام صاحب کو قاضی بنانا چاہا‘ امام صاحب نے انکار کردیا کہ میں اس کا اہل نہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ: آپ جھوٹ کہتے ہیں‘ آپ اس کے اہل ہیں۔ امام صاحب نے فرمایا کہ: اگر میں جھوٹ کہتاہوں تو میرا دعویٰ بالکل سچا ہے‘ کیونکہ جھوٹا اہل نہیں ہوتا۔ بادشاہ نے اصرار کیا‘ تب بھی امام صاحب نے انکار کردیا‘ بالآخر جب امام صاحب نہ مانے تو ان کو قید کرادیا اور دس کوڑے روزانہ لگواتا۔ امام صاحب کے پاس جیل خانہ ہی میں ایک ہزار طالب علم سبق پڑھنے کے لئے آنے لگے‘ بادشاہ کو ا س کا علم ہوا تو فکر ہوئی کہ کہیں یہ ان سب کو لے کر بغاوت نہ کردے‘ اس لئے امام صاحب کو زہر پلانا چاہا‘ جب امام صاحب کے پاس زہر کا پیالہ لایا گیا‘ تو آپ کو بذریعہ کشف ا سکا علم ہوگیا آپ نے اس کے پینے سے انکار کردیا تو زبردستی پلادیا گیا‘ آپ اس کو پیتے ہی سجدے میں گر پڑے اور اسی حالت میں وہیں وفات ہوگئی رحمہ اللہ رحمة واسعة
بادشاہ نے ایک محتسب بھی مقرر کیا کہ نافذ کردہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دیا کرے‘ چنانچہ وہ محتسب ایسے لوگوں کو سزا دینے لگا جو قانونِ شاہی کی خلاف ورزی کرتے‘ ایک مرتبہ وہ محتسب امام صاحبکے پاس آیا اور دریافت کیا کہ حضرت! میری توبہ کی بھی کوئی شکل ہے؟ امام صاحب نے فرمایا کہ بالکل پکی توبہ کرلو کہ آئندہ ایسا نہ کروں گا‘ اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں گے۔ اس نے توبہ کرلی‘ اس کے بعد بادشاہ نے ایک قانون نافذ کیا اور اس کو بلاکر کہا کہ ہم نے فلاں قانون نافذ کیا ہے‘ تم اپنے کام کے لئے تیار ہوجاؤ یعنی جو شخص ا س کے خلاف کرے اس کو سزا دو۔ اس نے کہا: میں اس کا جواب کل دوں گا‘ رات کوامام صاحب کے پاس آیا اور عرض کیا کہ: مجھے بادشاہ نے ایسا حکم دیا ہے‘ میں کیا کروں؟ مشورہ دیجئے! امام صاحب نے فرمایا: تمہارے امتحان کا وقت آیاہے کہ آیا تم نے پکی توبہ کی ہے یا کچی؟ اس پر اس نے کہا کہ اچھا! میں اس کام کے لئے ہرگز نہ جاؤں گا‘ چنانچہ صبح کو جاکر بادشاہ سے انکار کردیا کہ میں اس کام کے لئے تیار نہیں ہوں۔ بادشاہ نے تحقیق کرائی کہ دیکھو یہ رات کس کے پاس گیا تھا‘ معلوم ہوا کہ امام صاحب کے پاس گیا تھا اور ان سے مشورہ کرکے آیا ہے‘ اس پر بادشاہ نے کہا کہ اچھا! ہم یہاں کا قاضی امام ابوحنیفہ ہی کو بنائیں گے اور انہیں کے ذریعہ اپنے احکامات کا اعلان کرائیں گے ‘چنانچہ اس نے امام صاحب کو قاضی بنانا چاہا‘ امام صاحب نے انکار کردیا کہ میں اس کا اہل نہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ: آپ جھوٹ کہتے ہیں‘ آپ اس کے اہل ہیں۔ امام صاحب نے فرمایا کہ: اگر میں جھوٹ کہتاہوں تو میرا دعویٰ بالکل سچا ہے‘ کیونکہ جھوٹا اہل نہیں ہوتا۔ بادشاہ نے اصرار کیا‘ تب بھی امام صاحب نے انکار کردیا‘ بالآخر جب امام صاحب نہ مانے تو ان کو قید کرادیا اور دس کوڑے روزانہ لگواتا۔ امام صاحب کے پاس جیل خانہ ہی میں ایک ہزار طالب علم سبق پڑھنے کے لئے آنے لگے‘ بادشاہ کو ا س کا علم ہوا تو فکر ہوئی کہ کہیں یہ ان سب کو لے کر بغاوت نہ کردے‘ اس لئے امام صاحب کو زہر پلانا چاہا‘ جب امام صاحب کے پاس زہر کا پیالہ لایا گیا‘ تو آپ کو بذریعہ کشف ا سکا علم ہوگیا آپ نے اس کے پینے سے انکار کردیا تو زبردستی پلادیا گیا‘ آپ اس کو پیتے ہی سجدے میں گر پڑے اور اسی حالت میں وہیں وفات ہوگئی رحمہ اللہ رحمة واسعة
0 comments:
Post a Comment