قیامت کے روز شفاعت
’’معبد
بن ہلال عنزی سے روایت ہے کہ ہم اہلِ بصرہ اکٹھے ہو کر حضرت انس بن مالک
رضی اللہ عنہ سے ملنے گئے اور ہم ان کے پاس اپنے ساتھ ثابت بُنانی کو لے
گئے تاکہ وہ ان سے ہمارے لیے حدیثِ شفاعت کا سوال کریں؟ وہ اپنے گھر میں
تھے۔ ہم نے انہیں نماز چاشت پڑھتے ہوئے پایا اور داخل ہونے کی اجازت مانگی
تو انہوں نے اجازت دے دی آپ اپنے بچھونے پر بیٹھے تھے۔ ہم نے ثابت سے کہا :
حدیث شفاعت سے قبل آپ ان سے کوئی اور سوال نہ کریں تو انہوں نے عرض کیا : ابو حمزہ! یہ آپ کے بھائی بصرہ سے آئے ہیں اور آپ سے حدیثِ شفاعت کے بارے پوچھنا چاہتے ہیں؟
’’انہوں نے کہا : ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن لوگ دریا کی موجوں کی مانند بے قرار ہوں گے تو وہ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے : آپ اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے، وہ فرمائیں گے : یہ میرا مقام نہیں، تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو جائیں گے جس پر وہ فرمائیں گے : یہ میرا منصب نہیں تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں۔ پس وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں جائیں گے تو وہ فرمائیں گے : میں اس لائق نہیں تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ روح اللہ اور اس کا کلمہ ہیں۔ پس وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو وہ فرمائیں گے : میں اس شفاعت کے قابل نہیں تم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔
’’پس لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا : ہاں! اس شفاعت کے لیے تو میں ہی مخصوص ہوں۔ پھر میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت مل جائے گی اور مجھے ایسے حمدیہ کلمات الہام کئے جائیں گے جن کے ساتھ میں اللہ کی حمد و ثنا کروں گا وہ اب مجھے مستحضر نہیں ہیں۔ پس میں ان محامد سے اﷲ کی تعریف و توصیف کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ سو مجھے کہا جائے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر اٹھائیں، اپنی بات کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا : میرے رب! میری امت، میری امت، پس فرمایا جائے گا : جاؤ اور جہنم سے ہر ایسے امتی کو نکال لو جس کے دل میں جَو کے برابر بھی ایمان ہو پس میں جاکر یہی کروں گا۔ پھر واپس آکر ان محامد کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ پس کہا جائے گا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر اٹھائیے اور کہیے!آپ کو سنا جائے گا، مانگیے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا : اے میرے رب! میری امت، میری امت! پس فرمایا جائے گا : جاؤ اور جہنم سے اسے بھی نکال لو جس کے دل میں ذرے کے برابر یا رائی کے برابر بھی ایمان ہو۔ پس میں جا کر ایسے ہی کروں گا۔ پھر واپس آ کر انہی محامد کے ساتھ اس کی حمد و ثناء بیان کروں گا اور پھر اس کے حضور سجدے میں گرجاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر اٹھائیے اور کہیے، آپ کو سنا جائے گا، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا : اے میرے پیارے رب! میری امت، میری امت، پس وہ فرمائے گا : جاؤ اور اسے بھی جہنم سے نکال لو جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی بہت ہی کم بہت ہی کم بہت ہی کم ایمان ہو۔ پس میں خود جاؤں گا اور جا کر ایسا ہی کروں گا۔
’’جب ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلے تو میں نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا : ہمیں حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس چلنا چاہئے جو کہ ابو خلیفہ کے مکان میں روپوش ہیں اور انہیں وہ حدیث بیان کرنی چاہئے جو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کی ہے۔ چنانچہ ہم ان کے پاس آئے اور انہیں سلام کیا پھر انہوں نے ہمیں اجازت دی تو ہم نے ان سے کہا : ابو سعید! ہم آپ کے پاس آپ کے بھائی انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ہاں سے ہوکر آئے ہیں اور انہوں نے ہم سے جو شفاعت کے متعلق حدیث بیان کی ہے اس جیسی حدیث ہم نے نہیں سنی۔ انہوں نے کہا : بیان کرو، ہم نے ان سے حدیث بیان کی جب اس مقام تک پہنچے تو انہوں نے کہا : (مزید) بیان کرو، ہم نے ان سے کہا : اس سے زیادہ انہوں نے بیان نہیں کی۔ انہوں نے کہا : حضرت انس رضی اللہ عنہ آج سے بیس سال قبل جب صحت مند تھے تو انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی تھی، مجھے معلوم نہیں کہ وہ باقی بھول گئے ہیں یا اس لئے بیان کرنا ناپسند کیا ہے کہ کہیں لوگ بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔ ہم نے کہا : ابوسعید! پھر آپ ہم سے وہ حدیث بیان کیجئے اس پر آپ ہنسے اور فرمایا : انسان جلد باز پیدا کیا گیا ہے۔ میں نے اس کا ذکر ہی اس لئے کیا ہے کہ تم سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح تم سے بیان کی۔
’’(مگر اس میں اتنا اضافہ کیا کہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں چوتھی دفعہ واپس لوٹوں گا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کروں گا پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں آپ کو سنا جائے گا، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا : اے میرے پیارے رب ! مجھے اُن کی (شفاعت کرنے کی) اجازت بھی دیجئے جنہوں نے لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُُ کہا ہے، پس وہ فرمائے گا : مجھے اپنی عزت و جلال اور عظمت و کبریائی کی قسم! میں انہیں ضرورجہنم سے نکالوں گا جنہوں نے لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُُ کہا ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : کلام الرب عزوجل يوم القيامة مع الأنبياء وغيرهم، 6 / 2727، الرقم : 7072، ومسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : أدنٰی أهل الجنة منزلة فيها، 1 / 182 - 184، الرقم : 193
’’انہوں نے کہا : ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن لوگ دریا کی موجوں کی مانند بے قرار ہوں گے تو وہ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے : آپ اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے، وہ فرمائیں گے : یہ میرا مقام نہیں، تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو جائیں گے جس پر وہ فرمائیں گے : یہ میرا منصب نہیں تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں۔ پس وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں جائیں گے تو وہ فرمائیں گے : میں اس لائق نہیں تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ روح اللہ اور اس کا کلمہ ہیں۔ پس وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو وہ فرمائیں گے : میں اس شفاعت کے قابل نہیں تم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔
’’پس لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا : ہاں! اس شفاعت کے لیے تو میں ہی مخصوص ہوں۔ پھر میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت مل جائے گی اور مجھے ایسے حمدیہ کلمات الہام کئے جائیں گے جن کے ساتھ میں اللہ کی حمد و ثنا کروں گا وہ اب مجھے مستحضر نہیں ہیں۔ پس میں ان محامد سے اﷲ کی تعریف و توصیف کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ سو مجھے کہا جائے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر اٹھائیں، اپنی بات کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا : میرے رب! میری امت، میری امت، پس فرمایا جائے گا : جاؤ اور جہنم سے ہر ایسے امتی کو نکال لو جس کے دل میں جَو کے برابر بھی ایمان ہو پس میں جاکر یہی کروں گا۔ پھر واپس آکر ان محامد کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ پس کہا جائے گا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر اٹھائیے اور کہیے!آپ کو سنا جائے گا، مانگیے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا : اے میرے رب! میری امت، میری امت! پس فرمایا جائے گا : جاؤ اور جہنم سے اسے بھی نکال لو جس کے دل میں ذرے کے برابر یا رائی کے برابر بھی ایمان ہو۔ پس میں جا کر ایسے ہی کروں گا۔ پھر واپس آ کر انہی محامد کے ساتھ اس کی حمد و ثناء بیان کروں گا اور پھر اس کے حضور سجدے میں گرجاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر اٹھائیے اور کہیے، آپ کو سنا جائے گا، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا : اے میرے پیارے رب! میری امت، میری امت، پس وہ فرمائے گا : جاؤ اور اسے بھی جہنم سے نکال لو جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی بہت ہی کم بہت ہی کم بہت ہی کم ایمان ہو۔ پس میں خود جاؤں گا اور جا کر ایسا ہی کروں گا۔
’’جب ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلے تو میں نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا : ہمیں حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس چلنا چاہئے جو کہ ابو خلیفہ کے مکان میں روپوش ہیں اور انہیں وہ حدیث بیان کرنی چاہئے جو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کی ہے۔ چنانچہ ہم ان کے پاس آئے اور انہیں سلام کیا پھر انہوں نے ہمیں اجازت دی تو ہم نے ان سے کہا : ابو سعید! ہم آپ کے پاس آپ کے بھائی انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ہاں سے ہوکر آئے ہیں اور انہوں نے ہم سے جو شفاعت کے متعلق حدیث بیان کی ہے اس جیسی حدیث ہم نے نہیں سنی۔ انہوں نے کہا : بیان کرو، ہم نے ان سے حدیث بیان کی جب اس مقام تک پہنچے تو انہوں نے کہا : (مزید) بیان کرو، ہم نے ان سے کہا : اس سے زیادہ انہوں نے بیان نہیں کی۔ انہوں نے کہا : حضرت انس رضی اللہ عنہ آج سے بیس سال قبل جب صحت مند تھے تو انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی تھی، مجھے معلوم نہیں کہ وہ باقی بھول گئے ہیں یا اس لئے بیان کرنا ناپسند کیا ہے کہ کہیں لوگ بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔ ہم نے کہا : ابوسعید! پھر آپ ہم سے وہ حدیث بیان کیجئے اس پر آپ ہنسے اور فرمایا : انسان جلد باز پیدا کیا گیا ہے۔ میں نے اس کا ذکر ہی اس لئے کیا ہے کہ تم سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح تم سے بیان کی۔
’’(مگر اس میں اتنا اضافہ کیا کہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں چوتھی دفعہ واپس لوٹوں گا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کروں گا پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں آپ کو سنا جائے گا، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا : اے میرے پیارے رب ! مجھے اُن کی (شفاعت کرنے کی) اجازت بھی دیجئے جنہوں نے لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُُ کہا ہے، پس وہ فرمائے گا : مجھے اپنی عزت و جلال اور عظمت و کبریائی کی قسم! میں انہیں ضرورجہنم سے نکالوں گا جنہوں نے لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُُ کہا ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : کلام الرب عزوجل يوم القيامة مع الأنبياء وغيرهم، 6 / 2727، الرقم : 7072، ومسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : أدنٰی أهل الجنة منزلة فيها، 1 / 182 - 184، الرقم : 193
0 comments:
Post a Comment