Wednesday 29 May 2013

Nadra K Bande

Posted by Unknown on 08:36 with No comments
’’نادرا‘‘ کے بندے___ گل نوخیز اختر

بچپن میں ہماری ایک ہمسائی کا نام ’’نادرہ‘‘ تھا، موصوفہ محلے میں اتنی پاپولر تھیں کہ جب ان کی شادی ہوئی تو کوئی بھی ان کے شوہر کو نام لے کر نہیں بلاتا تھا، سب یہی کہتے تھے ’’نادرہ کا بندہ آیا تھا، نادرہ کا بندہ چلا گیا ہے، نادرہ کا بندہ بیمار ہوگیا ہے، نادرہ کا بندہ بہت اچھا ہے‘‘۔اُن دنوں نادرہ کا ایک ہی بندہ تھا اوربلاشبہ بہت اچھا تھا، آج کل ’’نادرا‘‘ کے سینکڑوں بندے ہیں اور اِس ادارے سے ’’نادرہ کے بندے والا سلوک‘‘ ہی کر رہے ہیں ۔اگر آپ کے شناختی کارڈ کی مدت ختم ہونے والی ہے اور آپ سوچ رہے ہیں کہ اب کی بار بڑی آسانی سے نیا کارڈ بن جائے گا تواس خوش فہمی سے نکل آئیے، آپکا ٹائی ٹینک ڈوبنے والا ہے۔یقین نہیں آتا تو اپنے کسی دوست یار سے پوچھ لیجئے جس نے اپنے کارڈ کی تجدید کرائی ہو۔ مزے کی بات ہے کہ اگر آپ نارمل فیس میں کارڈ بنوانے کی بجائے ارجنٹ فیس کے ساتھ سمارٹ کارڈ بنوانا چاہیں تو پندرہ سوروپے میں دوگنی خواری آپ کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔

میرے ایک دوست کے شناختی کارڈ کی مدت ختم ہوگئی، اُسے شناختی کارڈ Re-new کرانا تھا اور ذرا جلدی چاہیے تھا، میں نے مشورہ دیا کہ ارجنٹ بنوا لو،ارجنٹ کارڈ 1500 فیس کے ساتھ ذرا جلدی مل جاتا ہے۔اُس بندہ خدا نے میری بات پر لبیک کہا اورلاہور میں نادرا کے سمن آباد والے دفتر جاپہنچا۔۔۔چار دن ہوگئے، بیچارے کی رونے والی حالت ہوگئی لیکن فارم جمع نہیں ہورہا تھا، روز ڈیڑھ سو بندوں کی لائن میں لگ کے نامراد واپس آجاتا اور جو سٹوریاں سناتا اُسے سن کر مجھے بے اختیار ہنسی آجاتی۔مثلاً اس نے بتایا کہ میرے پہلے والے شناختی کارڈ پر میرا مکمل ڈیٹا موجود ہے، لیکن پھر بھی مجھے روز تین گھنٹے لائن میں کھڑا کروا کے یہ کہہ کر بھیج دیا جاتاہے کہ پہلے اپنی بیوی اور والد صاحب کا اصل شناختی کارڈ لائیں، جو چیزیں پہلے سے میرے شناختی کارڈ ڈیٹا میں موجود ہیں وہ دوبارہ سے مجھے Fill کرنے کے لیے کہا جاتاہے، درمیان میں گھر کے ایڈریس میں ایک لفظ بھی غلط ہوجائے تو پھر واپس بھیج دیتے ہیں کہ آپ غلط بیانی کر رہے ہیں، رش کا یہ عالم ہے کہ ٹوکن مل بھی جائے تو باری دو دن بعد آتی ہے۔ دوست نے بے چارگی سے بتایا کہ وہ پندرہ سو روپے فیس بھی جمع کروا چکا ہے، اب مصیبت یہ ہے کہ فارم جمع کرانے کی باری ہی نہیں آرہی، اوپر سے فارم پر یہ بھی لکھا ہے کہ اگر یہ فارم 14 جون تک جمع نہ کرایا گیا تو فیس دوبارہ جمع کرانی پڑے گی۔

نادرا کے دفتر میں داخل ہوتے ہی سڑیل اور مردم بیزار خواتین یوں بات کرتی ہیں جیسے کوئی ان سے بھیک مانگنے آیاہے۔میرا یہ دوست ڈبل ایم اے ہے، عزت دار اور شریف انسان ہے، تاہم نادرا والوں نے اِن چار دنوں میں اِسے اس کی اوقات یاد دلا دی ہے۔مجھے اس کی باتوں کا یقین نہیں آرہا تھا لہذا میں نے سوچا میں خود جاکر دیکھتا ہوں۔ ہم دونوں 42 ڈگری سنٹی گریڈ میں نادرا کے دفتر پہنچے۔میرے دوست نے فوری طور پر اپنا فارم مجھے پکڑا دیا اور اشارہ کیا کہ دائیں ہاتھ والے کاؤنٹر سے ٹوکن ملے گا۔ میں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اوربمشکل رش میں سے گردن نکال سامنے بیٹھی بی بی سے کہا’’ٹوکن پلیز‘‘۔اُس نے قہر آلود نظروں سے میری طرف دیکھا اور ڈیڑھ دو انچ لمبے دانت نکال کرچلائی’’لائن چہ دفع ہو‘‘۔ میں بوکھلا کر سیدھا ہوگیا، ادھر اُدھر دیکھا، کچھ سمجھ نہ آئی کہ آخر لائن ہے کدھر، آخر کافی دیر سوچنے کے بعد میں ایک بابا جی کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔دس پندرہ منٹ گذر گئے لیکن بابا جی آگے نہ بڑھے تو میں نے نہایت ادب سے پوچھا’’بزرگو! لائن آگے کیوں نہیں بڑھ رہی؟‘‘۔ بابے نے گردن گھمائی ’’مینوں کی پتا، میں تے سیکورٹی گارڈ آں‘‘۔ میری جان نکل گئی، میں نے جلدی سے ایک قدم بڑھا یا اور ایک نوجوان کے پاس جاکھڑا ہوا، اس نے میری طرف دیکھا، پھر بڑے پیار سے پوچھا’’فارم جمع کرانے کے لیے ٹوکن لینا ہے؟‘‘ میں نے اثبات میں سرہلایا، اس نے احترام سے اپنا ٹوکن میرے حوالے کر دیااور بولا’’یہ لیں‘‘۔ میں ششدر رہ گیا، اتنی بھیڑ میں ایک نوجوان اپنا ٹوکن مجھے دے رہا تھا، یقیناًکسی عظیم باپ کا بیٹا تھا، میری آنکھوں میں آنسو آگئے ، میں نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا’’اے نیک دل نوجوان! اس نفسانفسی کے دور میں تمہیں اتنی بڑی نیکی کا خیال کیسے آیا؟‘‘۔ اطمینان سے بولا ’’ذرا اُدھر ٹوکن والی لائن کا نمبر پڑھ لیں‘‘۔ میں نے جلدی سے لائن کی طرف دیکھا جس کے اوپر ٹوکن نمبر لکھے ہوئے آرہے تھے، وہاں لکھا ہوا تھا’’ٹوکن نمبر2212 ‘‘ ۔۔۔میں نے اپنے ٹوکن کی طرف نظر ڈالی اور میری روح فنا ہوگئی ، میرے ٹوکن کا نمبر تھا’’3518 ‘‘ ۔ گویا جس چیونٹی کی رفتار سے فارم جمع ہورہے تھے اس لحاظ سے میرا نمبر لگ بھگ چار گھنٹے بعد آنا تھا۔ میں نے دوست کی طرف دیکھا جو کمینگی کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے اطمینان سے ایک کونے میں کرسی پر بیٹھا موبائل میں گیم کھیل رہا تھا۔میں نے آہ بھری اور لائن میں لگ گیا۔

میں نے بڑی بڑی لائنیں دیکھی ہیں لیکن یہ لائن میری زندگی کی پہلی لائن تھی جہاں ہر بندے کے منہ سے حسب توفیق گالیاں نکل رہی تھیں۔ کھڑے کھڑے میرے پاؤں شل ہوگئے لیکن میں ڈٹارہا۔ اُس لمحے مجھے احساس ہوا کہ میرا دوست دراصل میرا دوست نہیں بلکہ آستین کا نیولا ہے ورنہ اگر وہ چاہتا تو تھوڑی دیر میری جگہ پر کھڑے ہوکر مجھے آرام کا مشورہ دے سکتا تھا۔آخر ساڑھے تین گھنٹے بعد میری باری آہی گئی، میں آگے بڑھا تو مجھے ’’اک اور دریا کا سامنا ‘‘ کرنا پڑا۔ ایک اور بی بی میری منتظر تھی اور ایسے دیکھ رہی تھی گویا لعنت بھیج رہی ہو، میں نے جلدی سے دوست کو آواز دی، وہ تیزی سے میری طرف لپکا۔ میں نے فارم اس کے حوالے کیا اور خود لائن سے نکل کر ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔ بی بی نے ایک لمحہ اس کا فارم دیکھا، پھر بولی’’انتظار کرو، ابھی ڈیٹا نہیں آرہا‘‘۔ میرے دوست نے بے چارگی سے سر ہلا دیا۔ بیس منٹ بعد کمپیوٹر پر ڈیٹا آنا شروع ہوا، بی بی نے کچھ ٹائپ کیا ، پھر بولی’’رسید کدھر ہے؟‘‘ دوست بوکھلا کر بولا’’کون سی رسید؟‘‘ بی بی نے گھورا’’پندرہ سو روپے کی رسید‘‘ دوست کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، جلدی سے بولا’’وہ بھی لانی تھی؟‘‘ بی بی گھور کر بولی’’ہاں۔۔۔جاؤ لے کر آؤ‘‘۔ میں جلدی سے بولا’’اگر اس نے پندرہ سو روپے دیے ہیں تو آپ کے ریکارڈ میں بھی تو ہوں گے، اور اگر رسید ساتھ ہی لانی تو پہلے ہی اس کو بتا دیتیں‘‘۔ میری بات سنتے ہی بی بی نے فارم پکڑا، شیشے سے باہر نکال کر غصے سے میرے دوست کے ہاتھ میں تھمایا اور گرجی’’مجھے بحث پسند نہیں‘‘ اور یہ کہتے ہوئے اگلے ٹوکن نمبر کا اعلان کر دیا۔میرا دوست کہتا ہے کہ کسی کو اگر اپنی عزت کا بڑا مان ہو تو وہ صرف ایک چکر نادرا کے دفتر کا لگا لے، انشاء اللہ صدیوں اپنی بے وقوفی کا ماتم کرتا رہے گا۔

کالم لکھ چکا تو ’’نئی بات‘‘ کے رپورٹرعمران ارشد کی ایک خبر پر نظر پڑ گئی، لکھا ہے’’نادرا کے عام فیس سے پانچ گنا زیادہ فیس والے سمارٹ کارڈپر 36 ترغیبی سہولیات میں سے ایک بھی عملی طور پر فراہم نہیں کی جاسکی، کارڈ کو متعارف کرائے چھ ماہ سے زیادہ گذر چکے ہیں لیکن بیشتر محکموں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈنہ ہونے کی وجہ سے اس کارڈ پر اعلان کردہ سہولیات فنکشنل نہیں ہوسکیں‘‘۔ اللہ سب کو دوزخ اور نادرا کے عذاب سے بچائے کیونکہ دونوں جگہ سٹاف لگ بھگ ایک جیسا ہی لگتاہے۔چیئرمین نادرا سے اس بات کی تصدیق کروانی پڑے گی۔

0 comments:

Post a Comment