کفار کا وفد بارگاہ رسالت میں
ایک مرتبہ سرداران قریش حرم کعبہ میں بیٹھے ہوئے یہ سوچنے لگے کہ آخر اتنی تکالیف اور سختیاں برداشت کرنے کے باوجود محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اپنی تبلیغ کیوں بند نہیں کرتے؟ آخر ان کا مقصد کیا ہے؟ ممکن ہے یہ عزت و جاہ یا سرداری و دولت کے خواہاں ہوں۔
ایک مرتبہ سرداران قریش حرم کعبہ میں بیٹھے ہوئے یہ سوچنے لگے کہ آخر اتنی تکالیف اور سختیاں برداشت کرنے کے باوجود محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اپنی تبلیغ کیوں بند نہیں کرتے؟ آخر ان کا مقصد کیا ہے؟ ممکن ہے یہ عزت و جاہ یا سرداری و دولت کے خواہاں ہوں۔
چنانچہ سبھوں نے عتبہ بن ربیعہ کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ تم کسی طرح ان کا دلی مقصد معلوم کرو۔
چنانچہ عتبہ تنہائی میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ملا اور کہنے لگا کہ اے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آخر اس دعوت اسلام سے آپ کا مقصد کیا ہے؟ کیا آپ مکہ کی سرداری چاہتے ہیں ؟ یا عزت و دولت کے خواہاں ہیں؟ یا کسی بڑے گھرانے میں شادی کے خواہش مند ہیں؟ آپ کے دل میں جو تمنا ہو کھلے دل کے ساتھ کہہ دیجیے۔ میں اس کی ضمانت لیتا ہوں کہ اگر آپ دعوت اسلام سے باز آجائیں تو پورا مکہ آپ کے زیر فرمان ہو جائے گا اور آپ کی ہر خواہش اور تمنا پوری کر دی جائے گی۔
عتبہ کی یہ ساحرانہ تقریر سن کر حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جواب میں قرآن مجید کی چند آیتیں تلاوت فرمائیں۔ جن کو سن کر عتبہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس کے جسم کا رونگٹا رونگٹا اور بدن کا بال بال خوف ذوالجلال سے لرزنے اور کانپنے لگا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ میں آپ کو رشتہ داری کا واسطہ دے کر درخواست کرتا ہوں کہ بس کیجیے۔ میرا دل اس کلام کی عظمت سے پھٹا جا رہا ہے۔
عتبہ بارگاہ رسالت سے واپس ہوا مگر اس کے دل کی دنیا میں ایک نیا انقلاب رونما ہو چکا تھا۔ عتبہ ایک بڑا ہی ساحر البیان خطیب اور انتہائی فصیح و بلیغ آدمی تھا۔ اس نے واپس لوٹ کر سرداران قریش سے کہہ دیا کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) جو کلام پیش کرتے ہیں وہ نہ جادو ہے نہ کہانت نہ شاعری بلکہ وہ کوئی اور ہی چیز ہے۔ لہٰذا میری رائے ہے کہ تم لوگ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر وہ کامیاب ہو کر سارے عرب پر غالب ہوگئے تو اس میں ہم قریشیوں ہی کی عزت بڑھے گی، ورنہ سارا عرب ان کو خود ہی فنا کر دے گا مگر قریش کے سرکش کافروں نے عتبہ کا یہ مخلصانہ اور مد برانہ مشورہ نہیں مانا بلکہ اپنی مخالفت اور ایذا رسانیوں میں اور زیادہ اضافہ کر دیا۔
(زرقانی علی المواهب ج۱ ص ۲۵۸ و سيرت ابن هشام ج۱ ص۲۹۴)
(زرقانی علی المواهب ج۱ ص ۲۵۸ و سيرت ابن هشام ج۱ ص۲۹۴)
0 comments:
Post a Comment